سید کاظم رضوی
قارئین کی نذر کروناوائرس سے متعلق سلسلے کی دوسری قسط حاضر خدمت ہے ایک ایسا قاتل وائرس جو دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے دنیا کی بڑی معیشتیں اور حکومتیں بھی اس سے خوفزدہ دکھائی دیتی ہیں جبکہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سارے نوسر باز بھی اپنے اشتہار اور دعوﺅں کا بازار پوری واٹس آپ اور فیس بک پر بھر چکے ہیں۔
اس بیماری کا واحد علاج ابھی تک احتیاط ہی سامنے آیا ہے جس کو بھی کرونا نے بخشا ہوا ہے وہ شکر ادا کرے اور خود کو گھر میں محصور کرلے، ماہرین کے مطابق ہر اس نئے شخص کو جو آپ کو دکھے ایسا تصور کریں جیسا وہ حقیقی بیمار ہو اور اس طرح پوری احتیاطی تدابیر پر عمل کریں کیونکہ اندیشہ یہی ہے اگر صورتحال بس سے باہر ہوءتو پھر کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔
اپنی اور فیملی کی فلاح کے ساتھ ہی معاشرے کی فلاح کا سوچیں کیونکہ اگر آپ احتیاط نہیں کرتے تو نہ صرف آپ خود اس بیماری کا شکار ہونگے بلکہ دوسروں کو بھی یہ بیماری لگانے کا باعث بنیں گے جو انتہائی درجے کی نفسیاتی اور معاشی و معاشرتی مسائل کو جنم دے سکتی ہے اس لیئے خود کو اپنے گھر تک محدود کرلیں۔
جو وائرس ان ہلاکتوں اور تباہی کا باعث بنا ہوا ہے مختلف آراء کے مطابق کسی سانپ ، چمگادڑ یا انسانی تجربے کے ناکام ہونے کے سبب بے قابو ہوکر اپنے رنگ دکھا رہا ہے اور یہ انسان سے کہیں زیادہ ہوشیار اور چالاک ہے جو خود کو خاموشی سے پھیلانے اور اپنی بقاءکی جنگ پوری انسانیت سے لڑ رہا ہے۔
اسکا شکار بزرگ اور مرد زیادہ ہیں جوہلاکتوں سے اخذ کردہ نتائج کی روشنی میں سامنے آئے جبکہ کچھ لوگ شفایاب بھی ہوئے ہیں اور ان کو نئی زندگی ملی ہے آنے والا وقت اور زیادہ سخت امتحان ثابت ہوگا لیکن فرشتوں سے افضل اور اشرف المخلوقات کو جو آذادی ملی اور اس کی فطرت میں شامل ہے یہ وائرس اس کو یاجوج ماجوج کی طرح دیواروں کے پیچھے قید کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوگا اسکا جواب جلد سامنے آئیگا لیکن انسانیت اب ایک ایسے خوف کے سائے تلے گھروں میں دبکی کسی معجزاتی دواءیا تریاق کے انتظار میں بیٹھی ہے کہ کب کوءنوید مسرت سننے کو ملے ( جاری ہے )۔
٭٭٭