احتیاط وقت کا تقاضہ ہے!!!

0
127
جاوید رانا

جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو

آج جب میں سطور لکھنے بیٹھا ہوں تو ذہن سوائے ایک ہی موضوع کے اور کسی جانب نہیں جاتا، بس ایک ہی سوچ صرف میری ہی نہیں در حقیقت دنیا بھر کے سات ارب سے زائد انسانوں اور ممالک کا موضوع ہے، یہ عنوان ہے چین سے آغاز پذیر ہونےوالے موذی وائرس کرونا کا جس نے اس وقت دنیا کے 200 سے زائد ممالک اور لاکھوں افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، ہزاروں افراد لقمہ¿ اجل بن چکے ہیں، دنیا کا کوئی براعظم اس کے چُنگل سے محفوظ نہیں رہ سکا، چین نے تو تقریباً 90 فیصد تک اس وباءپر قابو پا لیا ہے لیکن یورپ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، اٹلی میں اس کے اثرات اور اس کی وجہ سے اموات سب سے زیادہ ہوئی ہیں، اسپین، فرانس، جرمنی، بیلجئیم، انگلستان میں بھی حالات کچھ مختلف نہیں۔ یہاں تک ہی معاملات محدود نہیں امریکہ میں حالات انتہائی دگرگوں ہیں، نیویارک، کیلیفورنیا اور واشنگٹن کی ریاستیں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں اور الی نائے سمیت دیگر ریاستوں میں یہ وباءتیزی سے اپنی ہولناکیوں کے مظاہر دکھا رہی ے۔ دنیا کی ان انتہائی ایڈوانسڈ مملکتوں میں جدید ترین صحت عامہ، علاج اور سہولیات کے باوجود اس پر قابو پانا نہ صرف انتہائی مشکل بلکہ نا ممکنات کی حد تک نظر آرہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور دیگر اداروں کے بلیٹن واضح طور پر اس وباءکی شدت اور ہولناکیوں کے حوالے سے محض خوفناک تصویر دکھا رہے ہیں۔ امریکہ کے سرجن جنرل ڈاکٹر جیرومے نے واضح کر دیا ہے کہ یہ ہفتہ مزید مشکل اور خطرناک ہو سکتا ہے، اس وباءکے تدارک کیلئے ابھی تک کوئی ویکسین یا دوا سامنے نہیں آسکی ہے اور اس سے بچاﺅ کیلئے لوگوں کو اپنے گھروں تک محدود رہنے کی ہدایات دی جا رہی ہیں۔ تمام ادارے، سرگرمیاں اور کاروبار بند کر دیئے گئے ہیں۔ یہ صورتحال صرف امریکہ میں ہی تقریباً ان تمام ممالک میں ہے اور وہاں مکمل لاک ڈاﺅن نافذ کر دیا گیاہے یا کرفیو کا نفاذ کر دیا گیا ہے۔ عمل درآمد کیلئے فوج یا سیکیورٹی ادارے تعینات ہیں۔ خود امریکہ میں نیشنل گارڈز کو تعینات کیا گیا ہے تاکہ لوگ احتیاطی اقدامات پر عمل کریں۔
درج بالا سطور سے یہ امر واضح ہے کہ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام اور مملکتوں کو بھی اس وباءسے محفوظ رہنے اور اس کے پھیلاﺅ کو روکنے کیلئے اپنے سیکیورٹی اداروں کو استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔ بہترین طبی سہولتوں کے نظام کے باوجود اس پر قابو پانا دُشوار ہو گیا ہے اور لوگوں کو سمجھانا کاردارد بن گیا ہے۔ یہ موذی وباءجسے COVID-19 کا نام دیا گیا ہے، کسی طور پر قابو میں آتی نظر نہیں آرہی۔ دنیا کے 194 ممالک اس وباءکی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ نظام زندگی مفلوج ہو چکا ہے، معیشت کے تمام اشارئیے نچلی ترین سطح پر آچکے ہیں،سرکاری، نجی ادارے، مذہبی، سماجی، اجتماعات و عبادات پر حفاظتی پابندیاں ہیں، ہر مذہب کی عبادت گاہوں کو عام اجتماعات کیلئے ممنوع قرار دیدیا گیا ہے، حتیٰ کہ حرم شریف، روضہ رسولﷺ، اہم ترین مسیحی، یہودی و دیگر مذاہب و دھرم کی عبادت گاہیں جماعتی عبادات و دیگر اجتماعی سرگرمیوں کو روک دیا گیا ہے، مختصراً یہ کہ اس وقت تقریباً تمام کرہ¿ ارض ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہے جہاں تمام تر انسانی تدابیر و دنیاوی وسائل ہونے کے باوجود بنی نوع انسان ایک نادیدہ وائرس کے تدارک سے مجبور ہے، یہ حقیقت بالکل مصدقہ ہو گئی ہے کہ تمام تر ترقی کے باوجود، جدید ترین ایجادات، دریافتوں اور وسائل کے باوجود حضرت انسان مجبور و بے بس ہو چکے ہیں اور معجزات کے منتظر ہیں۔ کائنات کے مالک و معبود کے حضور دعا گو ہیں اور اس کی رحیمی و عنایت کے طالب ہیں، پس یہ ثابت ہے کہ اللہ رب العزت ہی قادر و مقتدر ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے حکم سے ہی کن فیکون ہے۔
یہ وقت رب کائنات کے حضور گڑ گڑانے اور اس سے خیر و امن مانگنے، گناہوں سے توبہ کرنے، استغفار اور شفاءو سلامتی طلب کرنے کا ہے کہ ہر مذہب ہر دھرم ہر عقیدے کا مرکز وہ مالک حقیقی ہے۔ ہم بنی نوع انسان اپنے اعمال کی جس حد تک گِر چکے ہیں، کرونا نام کا یہ وائرس ہمیں اپنی اوقات اور اللہ تعالیٰ کی قدرت بتانے کیلئے ایک انتباہ ہے کہ ہم صراط مستقیم کو پہچان سکیں۔ اس وائرس کے ناطے یہ تو ہوا کہ حکمران، بزعم خود مختار اور اقوام نے اللہ، خدا، مالک، بھگوان غرض کائنات کے مالک کو کسی بھی نام سے پکارا اور اس سے مدد چاہی ہے، یہاں امریکی صدر کا یوم دعا کا اعلان اس کی ایک مثال ہے، دیگر ممالک و اقوام بھی اپنے عقیدوں کے مطابق رب کریم سے پناہ کے طلبگار ہیں۔ دوسری جانب اس جان لیوا وباءکے پس منظر میں عجیب و غریب طرح کی افواہیں، طریقہ ہائے علاج، کرونا کی حقیقت و پیشگوئیوں کا ایک طوفان برپا ہے جو نہ صرف حقائق کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ اس سے متعلق عموماً خلجان میں مبتلا کر رہے ہیں۔
خلجان کی کیفیت تو پاکستان میں کچھ زیادہ ہی ہے۔ ایک جانب وفاق اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی اور یکساں فیصلہ سازی کا فقدان نظر آتا ہے۔ دوسری جانب مولویوں اور مذہبی ٹھیکیداروں کی مذہبی قنوطیت کرونا کے تدارک نیز احتیاطی تدابیر، فاصلہ جاتی احتیاط اور دیگر اقدامات سے گریز و فرار اور سب سے بڑھ کر عوام کے بے شعوری اور مسئلے کی اہمیت کو خاطر خواہ توجہ نہ دینا، اس موذی وباءکے پھیلنے کا سبب بن رہی ہے۔ پاکستان میں اس وباءکی بنیادی وجہ ایران سے آنے والے زائرین کی تفتان آمد اور بعض انتظامی غیر ضروری اقدامات کے باعث ان افراد کے ملک کے طول و عرض میں پھیل جانے سے بنی۔ 26 فروری کو پہلے کیس کے علم پر سندھ حکومت نے اقدامات کا آغاز کر دیا جبکہ سب سے زیادہ متاثرین بھی اسی صوبے کے تھے۔ دیگر صوبوں نے تاخیر کی وفاق کی جانب سے بھی شش و پنج کی کیفیت نظر آئی تھی نیز وباءکے حوالے سے حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کے مابین سیاسی چپقلش کے مظاہر میڈیا کا حصہ بنے ہوئے تھے۔ خدا خدا کر کے اب تمام صوبوں میں لاک ڈاﺅن کا نفاذ تو ہو گیاہے لیکن عوام میں جس غیر ذمہ د اری اور لاپرواہی کی صورت نظر آرہی ہے۔ وہ یقیناً ملک اور لوگوں کیلئے بہت نقصاند ہ اور جانوں کے احتمال کا باعث ہو سکتا ہے۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں پاکستان کا نظام صحت بہت محدود و قلیل ہے اور خدانخواستہ اس وباءکے باعث اگر متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اموات کا نمبر بڑھا تو قیامت صغریٰ کا منظر ہو سکتا ہے، وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ ملک کا ہر فرد اس وقت اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور اس وباءسے بچاﺅ کیلئے ہر وہ احتیاط اور اقدام کرے جس کیلئے مسلسل آگاہی دی جا رہی ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے لیکن اللہ اور اس کے رسولﷺ نے احتیاط بھی بتائی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here