کرونا اور سازشی مضروضے!!!

0
118
جاوید رانا

جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو

قارئین کرام! ہم یہ کالم لکھنے بیٹھے تو سوچ کے دھارے کسی نکتے کی جانب نہیں مُڑ رہے ہیں۔ دنیا بھر میں بس ایک ہی موضوع، ایک ہی عنوان سب کی توجہ، دلچسپی اور فکر و تدبر کا محور بنا ہوا ہے اور وہ ہے ”کرونا“ اور اس کی ہلاکت خیزیاں۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ترین ملک سے لے کر افریقہ کے انتہائی پسماندہ ممالک تک ہر جگہ اس نادیدہ خوردبین سے بھی بمشکل نظر آنے والے وائرس نے سارے کرہ¿ ارض کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کہ گویا قیامت صغریٰ کا منظر ہو۔ ہر مذہب، ہر ملک، ہر خطہ میں اس کے تدارک کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن یہ انسان دشمن بلا تیزی سے ہلاکت خیزیوں میں مصروف ہے۔ دنیا کے 200 سے زیادہ ممالک کو اپنی لپیٹ میں لینے والے اس وائرس نے زندگی پر جمود طاری کر دیا ہے۔ تمام سماجی، مذہبی، معاشی غرض زندگی گزارنے والی تمام سرگرمیاں اسٹینڈ اسٹل پر آگئی ہیں۔ ہر ملک، ہر قوم اور ہر فرد اپنے اپنے عقیدوں اور افکار کے مطابق اس سے نجات کی راہ کی تلاش اور خلجان کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اس وباءکو کوئی آزمائش قرار دے رہا ہے تو کوئی تنبیہ۔ کرونا کی اس وباءسے نمٹنے اور اس سے تدارک کیلئے کوئی واضح طبی یا مو¿ثر طریقہ سامنے نہیں آسکا ہے۔ امریکہ سمیت دنیا بھر کے سائنسدان اور ادارے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں، علاج کیلئے ویکسین کی تیاری میں مصروف ہیں اور اس بات کا عندیہ دیا جا رہا ہے کہ اس کی تیاری اور مارکیٹ کرنے نیز علاج کیلئے 18 ماہ (ڈیڑھ سال) تک کا عرصہ ہو سکتا ہے۔ ایک فرد سے 37 افراد تک اور مزید سینکڑوں افراد میں اس کے اثرات کے تیز ترین عمل نے دنیا بھر کو خوف و ہراس میں مبتلا کیا ہوا ہے اور اس موذی وائرس سے بچنے کیلئے احتیاطی اقدامات پر نیز آپس میں فاصلہ جاتی، احتیاط پر زور دیا جا رہا ہے۔ اس وباءسے متاثرہ لوگوں نیز ضعیف العمر افراد کیلئے ٹیسٹ اور قرنطینیہ کے اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن اس وائرس کی تیز ترین ہولناکیوں نے امریکہ جیسے انتہائی ترقی یافتہ ملک کو بھی ہلکان کر دیاہے۔ اربوں ڈالر سے وینٹی لیٹرز، ٹیسٹ کٹس، پورے نہیں ہو رہے ہیں۔ صدر اور ریاستی گورنرز کے درمیان تلخیاں بڑھ رہی ہیں۔ ہسپتالوں میں جگہ نہ ہونے کے باعث فیلڈ ہسپتال قائم ہو رہے ہیں پھر بھی ضروریات پوری نہیں ہو پا رہی ہیں۔ یہی حال یورپ کے انتہائی متاثرہ ملکوں میں بھی ہے۔ کرہ¿ ارض پر قیامت صغریٰ کے اس تناظر میں یعنی کرونا کے تیزی سے پھیلاﺅ کے نتیجے میں طرح طرح کے تجزیوں اور مفروضوں کا ایک طوفان برپا ہے مختلف حلقے اور میڈیا خوردبین سے بھی نظر نہ آنے والے اس وائرس کی ہیبت، اثرات اور اس پر موسمی اثرات کے حوالے سے اور مختلف ملکوں اور who سمیت صحت کے اداروں کی تحقیق کو بنیاد بنا کر اسے موسمی اثرات و درجہ حرارت میں اضافہ کی بنیاد پر غیر مو¿ثر ہونے کی نوید سنا رہے ہیں تو کچھ افراد اور میڈیا اسے قدرتی آفت کی جگہ Man Made سازش قرار دے رہے ہیں۔ قارئین جانتے ہیں کہ چین نے ووہان میں اس وباءکے پھیلانے میں امریکہ کو ذمہ دار قرار دیا تھا جبکہ امریکہ میں اس وباءکے پھوٹ پڑنے پر صدر ٹرمپ اسے چائنہ وائرس کا نام دیتے رہے۔ اب سوشل میڈیا پر ایک نئی منطق بھی سامنے آئی ہے کہ یہ وائرس ایک متعینہ منصوبہ بندی کے تحت امریکہ، برطانیہ، اٹلی اور اسرائیل کے اشتراک سے بنایا گیا ہے اور اس کا مقصد دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی کو ختم کرنا ہے یا بہ الفاظ دیگر کم کرنا ہے۔ یہ انکشاف اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر عبداللہ حسین ہارون نے کرتے ہوئے بتایا کہ اس وائرس کاPatent امریکہ میں ہوا، دوائی کا پیٹنٹ برطانیہ میں، پہلا بیج ووہان کی لیبارٹری میں ایئر کینیڈا کے ذریعے بھیجا گیا۔ ان کے بقول اس سازش میں امریکہ، برطانیہ، اسرائیل چین کے ساتھ اس سازش میں بل گیٹس، جان ہاپکنص، کائرون کپنی اور برطانوی حکومت کو شامل قرار دیتے ہوئے یہ واضح کیا کہ اس وائرس کی دوا اسرائیل کے پاس ہے۔ اگر ہم اس منطق کو ایک لمحہ کیلئے بھی تسلیم کر لیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تمام منظر نامے میں جو زیادہ سے زیادہ نقصانات ہوئے ہیں وہ امریکہ، برطانیہ و دیگر یورپی ممالک کے علاوہ چین اور ایران کوجانی طور پر ہوا ہے بلکہ معاشی طور پر بھی ہوا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ کھیل امریکہ، برطانیہ کا ہوتا تو یہ کوئی دانشمندی نہیں ہو سکتی تھی کہ ان کے اپنے ممالک اور عوام پر اس وائرس کے اثرات ہوتے، ہزاروں افراد اموات کاشکار ہوتے اور وائرس کے اثرات میں برطانوی ولی عہد چارلس، وزیراعظم برطانیہ نیز امریکی انتظامیہ کے افراد اس کی لپیٹ میں آتے۔
ایک اور مفروضہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ چین نے ووہان کے واقعہ کے بعد اقدامات کے ذریعے امریکہ اور یورپ کو جواب دیا ہے جس کے نتیجے میں ساری دنیا کی معیشت زوال پذیر ہوئی ہے جبکہ چین معاشی طور پر مزید مضبوط ہوا ہے۔ چین نے یورپ اور امریکہ کے 30 فیصد کمپنیوں کے حصص ارزاں داموں خرید لئے ہیں چین نے ان کمپنیوں کے حصص خرید کر انہیں چین میں ہی کام کرنے کا فیسلہ کیا ہے جس سے چین کو 20 ارب ڈالر کا اضافی ریونیو متوقع ہے۔ ان دونوں مفروضات کا تقابلی جائزہ لیں تو ہمارا مو¿قف یہ بنتا ہے کہ چین نے اس وباءکا آغاز اپنے صوبے ہوان سے کیا، تین ماہ میں اس پر قابو بھی پا لیا اور یورپی ممالک و امریکہ کو جواباً اس وائرس سے جوابی وار کر کے نہ صرف لاکھوں افراد کو متاثر کیا بلکہ اس کی معیشت کو بھی تہہ و بالا کر دیا لیکن امریکہ اور یورپ اس قدر احمق ہیں کہ اپنے لوگوں کو مروا بھی رہے ہیں اور معاشی دھچکہ بھی کھا رہے ہیں تو کیا پھر یہ بات مان لی جائے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی کمی کے بل گیٹس کے چار سال پہلے کے استدلال پر عمل کرنے کیلئے ان ممالک کو اپنی آبادی میں بھی کمی درکار ہے۔ غالباً اسی لئے صدر ٹرمپ اس وائرس سے ایک لاکھ افراد کے مر جانے کو معمول قرار دینے پر مصر ہیں اور اپنے مخالفین اور میڈیا کے اعتراضات پر چراغ پا ہو جاتے ہیں۔
ان تمام حالات میں ہمارا مختصر تجزیہ تو یہی کہ حکمرانی اور معاشی برتری کی اس بین الاقوامی کھینچا تانی میں لاکھوں بے گناہ جانوں کا زیاں محل نظر ہے جو انسانیت کی انتہائی تضحیک اور بھیانک جرم ہے۔ اس بین الاقوامی وبائی منظر میں پاکستان بھی زد میں آگیا ہے وجہ کچھ بھی ہو، ہزاروں افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ اس صورتحال میں ہمارے سیاستدان، حکومتی و ریاستی ادارے میڈیا سب اس موذی وباءسے نپٹنے کیلئے ایک ساتھ ہوں۔ کم از کم اس وقت خصوصاً ہمارے سیاسی اکابرین اور میڈیا (خصوصاً اینکرز) اپنی وفاداریوں و مفادات سے بالاتر ہو کر اپنا فرض نبھائیں۔ Conspiracy Theories ملک کیلئے سود مند نہیں ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here