عالمی و قومی تشویشناک صورتحال!!!

0
64
جاوید رانا

قارئین کرام! عید تو گزر گئی فرزندان توحید نے دنیا بھر میں اس تہوار کو بصد مسرت منایا لیکن کیا عید کا یہ موقعہ درحقیقت ان خوشیوں کا حقیقی آئینہ دار تھا جن کی وعید دی گئی ہے، غزہ میں اسرائیلی جارحیت و مظالم کا سلسلہ جاری رہا حتیٰ کہ نماز عید کو بھی نہ بخشا گیا۔ مظلوموں کی شہادتوں اور مضروبیات اب بھی جاری ہے۔ دوسری جانب امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافے اور چین و روس کی ایران کی حمایت کا معاملہ عالمی منظر نامے میں پیش آمدہ خطرناک صورتحال کا پیشگوئی دے رہا ہے۔ امریکہ نے ایران کے گرد اپنی ری انفورسمنٹ میں ایک جانب اضافہ کر دیا ہے تو دوسری جانب ایران نے اپنی سرحدوں اور اطراف میں اپنی عسکری قوت بشمول فضائی فورسز و جیمرز کو متحرک کر کے عرب و مشرق وسطیٰ ممالک سے رابطے کرنے کیساتھ امریکہ سے کسی بھی قسم کے مذاکرات سے انکار کر دیا ہے۔ یقیناً یہ صورتحال تشویش کا پیغام دے رہی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ تشویشناک ایشو صدر ٹرمپ کی جانب سے ڈیڑھ سو سے زائد ممالک پر ٹیرف کا نفاذ ہے، اس اقدام کے نتیجے میں امریکہ سمیت یورپ، برصغیر و دیگر ممالک و خطوں کی اسٹاک مارکیٹس بری طرح کریش ہو گئی ہیں یہی نہیں امریکہ کی متعدد ریاستوں کے علاوہ کینیڈا، برطانیہ، فرانس اور دیگر یورپی ممالک کا احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ہم نے اپنے گزشتہ کالموں میں ٹرمپ کی فطرت کو شومین اور ڈیل کا حامل فرد قرار دیا تھا۔ تین ماہ کے عرصے میں اس کے ایگزیکٹو آرڈرز اور اقدامات کا نتیجہ اس صورت میں سامنے آیا ہے کہ کینیڈا، یورپ، چین و دیگر ممالک حتیٰ کہ اس کے آلۂ کار بھارت سمیت ہر طرف سے احتجاج و مذمت کیساتھ خود امریکی نمائندگان اور دیگر شعبوں کی اشرافیہ کے بیانیے و احتجاج سامنے آرہے ہیں، اس کی تازہ ترین مثال سینیٹر کوری بوکر کا پچیس گھنٹے طویل سینیٹ میں مخالفانہ خطاب اور ایلون مسک کی حکومتی ذمہ داریوں سے علیحدگی کا اعلان ہے۔ ٹیرف کے حوالے سے دنیا بھر میں رد عمل اور اسٹاک مارکیٹس کے کریش ہونے پر ٹرمپ کا مؤقف کہ اچھے وقت کیلئے مشکل و غیر مقبول فیصلے کرنا ضروری ہے اس کی فطرت کی بہت واضع غمازی ہے۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ ٹرمپ کے یہ اقدامات امریکہ اور عالمی امن و معیشت پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں۔ بادیٔ نظر میں تو آنے والا وقت نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر کیلئے منفی اثرات کی تعبیر ہی نظر آتا ہے۔ اثرات تو وطن عزیز میں بھی نہ فی زمانہ ثبت نظر آتے ہیں نہ ہی آئندہ کیلئے کوئی امید کی کرن پیش نظر ہے۔ بقول مرزا غالب”کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ سیاسی، معاشی، معاشرتی، انتظامی غرض کسی بھی حوالے سے سکون و اطمینان مقصود ہے، افرا تفری، ہیجان اور مایوسی کے سائے ہر طرف نظر آتے ہیں۔ تمام تر کاوشوں اور اقدامات کے باوجود نہ دہشتگردی کو لگام ہے نہ نظم و نسق اور امن و اتحاد کی کوئی سبیل نظر آتی ہے۔ سیاسی و اقتداری چشمکوں اور اسٹیبلشمنٹ کے برسوں کے غیر جمہوری رویوں نے ہر شعبہ حیات کو اس حد تک متاثر کیا ہے کہ خوف و ہراس، مایوسی اور بد ظنی و منفی سوچ کا شکار ہے۔ بار بار ہمیں دہرانا پڑتا ہے کہ ریاست یعنی مقتدرین کے شوق اقتدار و اختیار کے طویل دورانیے اور مشن کے سبب وطن عزیز خطہ میں اہم جغرافیائی، اسٹریٹجک حیثیت اور بھرپور وسائل کے باوجود اقدام اور خطہ میں مقتدرین کے غیر جمہوری رویوں کے سبب اپنے آپ کو منوانے سے قاصر ہے اور اس وجہ سے ہمارے اندرونی حالات بھی مسلسل تنزلی اور غیر یقینی کا شکار ہیں کوئی ادارہ شعبہ اور طبقہ ایسا نہیں جو اس صورتحال سے متاثر نہیں ہے۔ اس وقت حالات ایسے ہیں کہ صوبہ بھی امن و امان میں نہیں۔ صوبہ سرحد (کے پی) ٹی ٹی پی کی دہشتگدیوں کے حصار میں ہے تو بلوچستان میں علیحدگی پسند بی ایل اے، بی وائی ٹی نے انت کیا ہوا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں صوبوں کو بھارت اور افغانستان کی مدد اور سہولتکاری سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وطن عزیز کے بیٹوں کی شہادتوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں آرہا، بلوچستان میں تو وطن کے محافظوں کیساتھ ان غیر مسلح و نہتے پنجاب و دیگر صوبوں کے افراد کو شناختی کارڈ دیکھ کر مارا جا رہا ہے جو معاش و روزگار کیلئے بلوچستان میں آئے ہیں۔ دہشتگردوں اور علیحدگی پسندوں کی کارروائیاں روز کا معمول ہیں اور ریاست و حکومت کے تمام تر اقدامات و دعوے بے نیل و مرام ہیں۔ سندھ و پنجاب میں نہروں کے تنازعے نے تشویشناک صورتحال اور پیپلزپارٹی کے سندھی قوم پرستوں کے خوف سے وفاق سے جھگڑا ان دونوں صوبوں اور وفاقی حکومت کیلئے امن و سکون کیلئے وجہ نزع بن گیا ہے۔
مندرجہ بالا حالات کی وجہ صرف یہی ہے کہ وطن عزیز کو جمہوری عمل، درست عوامی نمائندگی اور آئینی تقاضوں کے برعکس انہی قوتوں کے زیر نگیں کر دیا گیا ہے جو سات دہائیوں سے پاکستان کے سیاہ و سفید پر قابض ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دن بدن بگڑتی ہوئی اس صورتحال کا تدارک کیا ہے؟
ہماری عرض ہے کہ عالمی صورتحال تو اس امر کے سبب ہے کہ اپنے گزشتہ دور کی طرح ٹرمپ اچنبھوں کی حرکات کرتا رہے گا اور ڈیلز کے راستے ڈھونڈے گا، دھونس دھمکی کے بعد مفاہمت کی جانب بڑھے گا، البتہ پاکستان کے حوالے سے امن و سکون کا واحد راستہ جمہوری تقاضوں کی تکمیل، آئین و انصاف کی بحالی اور عوام کے نمائندہ سیاسی رہنمائوں کو زمام اقتدار کی منتقلی ہے۔ کیا اقتدار کی عادی اشرافیہ ہماری اس عرضداشت پر غور و عمل کریگی؟ امید تو نہیں لیکن ہم عرض تمنا کرتے رہیں گے!۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here