ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں وطن عزیز کی دُگرگوں صورتحال کے پیش نظر سیاسی حالات کے دھارے کے حوالے سے عرض کیا تھا کہ عوام انتشار، منافقت اور مایوسی کے طوفان سے تھک چُکے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ملک ایسی صورتحال سے دوچار ہو جائے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہ ہو۔ گزشتہ ہفتے میں عدالت عظمیٰ کی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان باہمی مذاکرات اور اتفاق رائے سے ملک بھر میں ایک دن ہی الیکشن کرانے کی ہدایت کے بعد اتمام حجت کیلئے حکومتی اتحاد اور پی ٹی آئی نے مذاکرات کا آغاز تو کر دیا لیکن پورے ہفتے جس طرح کے حالات، واقعات و بیانات سامنے آئے ہیں وہ اس حقیقت کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ وطن عزیز میں سیاست و انتخابات کی بیل منڈھے چڑھتے نظر نہیں آتی بلکہ انتشار و عدم استحکام کی خلیج مزید گہری ہو رہی ہے۔ حکومت نہ صرف بجٹ کو بہانہ بنا کر موجودہ قومی و سندھ و بلوچستان اسمبلیوں کی تکمیل پر بضد ہے تو پی ٹی آئی کا اصرار مئی میں ان اسمبلیوں کی تکمیل پر ہے یہی نہیں حکومت کے وفاقی وزرائ، (مسلم لیگی) شاہد خاقان، خواجہ آصف، رانا ثناء اللہ، جاوید لطیف دعوے کر رہے ہیں کہ مذاکرات محض وقت کا ضیاع ہیں، انتخابات اپنے وقت پر ہی ہونگے، سوال یہ ہے کہ وہ وقت کونسا ہے؟ ن لیگ کی خود ساختہ شہزادی اور چیف آرگنائزر نے تو صاف کہہ دیا کہ انتخابات نوازشریف کے آنے کے بعد ہونگے۔ طلال چودھری نے تو سرکاری چینل پر بیٹھ کر گالم گلوچ اور ہذیان کی وہ کیفیت برپا کی اور انتخابات کے حوالے سے عمران خان و سپریم کورٹ کیخلاف وہ زہر اُگلا ہے جو نہ صرف تہذیب و اخلاق کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے بلکہ اس حقیقت کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ نا اہل حکومتی ٹولہ کسی بھی طرح الیکشن کرانے کیلئے تیار نہیں ہے۔ تہذیب، اخلاق، قانون اور ظلم و بربریت کی بدترین مثال تو گزشتہ ہفتے اس وقت سامنے آئی جب متعلقہ عدالت سے ضمانت ہونے کے باوجود چوہدری پرویز الٰہی کی گرفتاری کیلئے اینٹی کرپشن، پنجاب پولیس اور ریپڈ فورس کی فوج ظفر موج نے چوہدریوں کے گھر پر دھاوا بولا، بکتر بند گاڑی سے مین گیٹ توڑا، چوہدری پرویز الٰہی و چوہدری شجاعت کے گھروں کے دروازوں، کھڑکیوں کے شیشے توڑے، درجن بھر ملازمین و خواتین کو گرفتار کیا اور چادر و چار دیواری کی دھجیاں اُڑا دی گئیں۔ بربریت کی اس بدترین کارروائی میں چوہدری شجاعت کے صاحبزادے اور موجودہ حکومت کے وفاقی وزیر چودہری سالک اپنے والدین کے تحفظ میں زخمی بھی ہوئے لیکن پرویز الٰہی کو گرفتار نہ کیا جا سکا۔ عجیب بات یہ ہے کہ چوہدریوں کے گھر پر اس چڑھائی کے حوالے سے وفاقی حکومت نے قطعی لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ پنجاب کی نگراں حکومت نے بھی اس واردات کی ذمہ داری سے انکار کر دیا۔ نگران وزیراعلیٰ، آئی جی و چیف سیکرٹری پنجاب ملک سے باہر تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس لشکر کشی کی محرک کونسی اتھارٹی تھی، ڈی جی اینٹی کرپشن کیا اتنا سنگین اقدام کر سکتا تھا کہ پرویز الٰہی کی لیگل ٹیم کے ضمانت نامے کی وضاحت کے باوجود آپریشن جاری رکھا گیا۔ واضح رہے کہ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی چوہدری خاندان کا داماد بھی ہے، یہ بھی واضح رہے کہ چوہدریوں کی طویل سیاست کا محور اسٹیبلشمنٹ کی مرضی و منشاء پر ہی رہا ہے تو کیا یہ سمجھنا مناسب ہوگا کہ پرویز الٰہی کی پی ٹی آئی میں شمولیت اور صدارت اس قیامت کی وجہ تھی۔ کیا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومتی ٹولے کیساتھ فیصلہ سازوں کا بھی عمران کو اقتدار سے دور رکھنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔
ہمارا درج بالا جملہ معترضہ و مفروضہ قرار دیا جا سکتا ہے لیکن عمران کیخلاف حالیہ پیش آمدہ واقعات، آڈیو و ویڈیو لیکس، ٹکٹوں کے دینے پر پی ٹی آئی کے رہنمائوں خصوصاً گزشتہ دنوں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے انجم ثاقب کی پی پی 137- کے امیدوار ابوزر چٹھہ سے ٹکٹ کی ڈیل کی آڈیو لیک، قبل ازیں ثاقب نثار اور طارق رحیم کے درمیان عدالت عظمیٰ کے حوالے سے آڈیو کی حرکات اور ٹکٹوں کے معاملے پر پی ٹی آئی کے فرضی کارکنوں کے چینلز پر مسلسل احتجاج کے مناظر دکھانے کا تسلسل انتخاب سے فرار اور مذاکرات کو بے نتیجہ رکھنا نہیں۔ بات اس حد تک ہی نہیں گزشتہ ہفتے ڈی جی، آئی ایس پی آر کا میڈیا خطاب اور آرمی چیف کا 29 اپریل کو کاکُول اکیڈمی میں پاسنگ آئوٹ پریڈ میں اپنے خطاب میں دہشتگردی کیخلاف، مقبوضہ کشمیر و پاکستان کی سلامتی و استحکام کیلئے عزم و عمل کے اعادے کیساتھ عوام اور مسلح افواج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی مذمت کرتے ہوئے واضح کرنا کہ عوام اور فوج کے درمیان ہمارے رشتے کو تقسیم کرنے کا عمل قابل قبول نہیں اور ہمیں اپنا آئینی کردار پوری ذمہ داری سے ادا کرنا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے خصوصاً آئی ایس پی آر کے سوشل میڈیا کے پروہیگنڈے پر استدلال سے بین السطور میں یہ بات صاف نظر آرہی ہے کہ ریاست منقسم ہو چکی ہے۔ آئینی، انتظامیہ، حکومت، عدلیہ و حزب مخالف کے مؤقف واضح طور پر اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ان کے درمیان امن و سکون اور استحکام وطن کیلئے کوئی مشترکہ لائحہ عمل مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہی نظر آتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں انتشار و عدم استحکام سے نجات کا واحد حل شفاف و منصفانہ انتخابات کرا کے زمام اقتدار عوامی حقیقی نمائندوں کوسونپ دینا ہے۔ تاکہ ملک سیاسی، معاشی و فلاحی سمیت پیشقدمی کی جانب گامزن ہواور عوام کو زندگی کا سکون میسر ہو سکے۔ عمران خان اس وقت عوام کی امیدوں کا واحد مرکز ہے، تمام سروے، جائزے اور تجزئیے اس سچائی کی گواہی ہیں۔ یکم مئی کو پاکستان بھر خصوصاً لاہور، اسلام آباد، پشاور و دیگر شہروں میں تمام تر سختیوں، پابندیوں کے باوجود تاریخی ریلیاں کپتان کی مقبولیت اور عوام کی اس سے محبت کی سچی تصویر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے واضح احکامات، باہمی مذاکرات سے متفقہ تاریخ پر ملک بھر میں الیکشن کرانے کی ہدایت کے باوجود یہ مرحلہ تکمیل کو پہنچے گا؟ زرداری کے مذاکرات کے مشوروں کے باوجود فضل الرحمن اور لیگی حکومتی اشرافیہ کے منکارانہ و منافقانہ کردار اور سہولتکاروں کی عمران کو مین اسٹریم سے باہر رکھنے کی سوچ کے پیش نظر ہمارا تجزیہ تو یہ ہے کہ عمران خان کے مؤقف پر جولائی میں تو کیا اکتوبر میں بھی انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے اگر صورتحال یہی رہی تو نہ صرف عدم استحکام و انتشار و بے تحاشہ ہونے کیساتھ عوام میں مایوسی و اشتعال سے ایسی صورت برپا ہو سکتی ہے جو کسی بھی طرح ملک، قوم و جمہوریت کیلئے انتشار کے خاتمے کا باعث نہیں بلکہ دشمنوں اور دہشتگردوں کیلئے سازگار ہوگی۔ ہمارا خیال تو یہی ہے کہ انتخابات کی بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی ہے۔ اللہ خیر کرے، اندھیرے میں روشنی کی کوئی کرن نظر آئے!
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلائو بڑا اندھیرا ہے
٭٭٭