پاکستان نے 19مئی 2016 کو نیو کلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کے لئے درخواست جمع کرائی۔ پاکستان نے نیو کلیئر سپلائر گروپ پر ہمیشہ زور دیا کہ وہ این ایس جی کی رکنیت دیتے وقت کسی نوع کے امتیازی سلوک کی پالیسی اختیار نہ کرے۔پاکستان کی درخواست کی ترکی اور چین نے حمایت کی۔ نیو کلیئر سپلائر گروپ ان ممالک پر مشتمل ہے جو جوہری مواد کی فراہمی اس نکتہ نظر سے کرتے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں کا پھیلائو روکا جا سکے اور اس مواد کی برآمد کی حوصلہ شکنی کی جائے جو جوہری ہتھیار بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔یہ گروپ جوہری مواد کے تحفظ کے موجودہ معیاروں اور اقدامات میں بہتری لانے کے لئے بھی کام کرتا ہے۔پاکستان بھارت اسرائیل اور شمالی کوریا ایٹمی صلاحیت کے مالک ہیں۔اسرائیل نے اگرچہ اعلان نہیں کیا لیکن عالمی جائزوں میں اسے ایٹمی صلاحیت کا مالک سمجھا جاتا ہے۔انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانوگروسی نے پاکستان کے جوہری تحفظ اور سکیورٹی کے معیارات کو اطمینان بخش قرار دیا ہے ڈائریکٹر جنرل آئی اے ای اے نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سیفٹی اینڈ سکیورٹی کا دورہ کیا۔آئی اے ای اے نے حال ہی میں جوہری تحفظ میں صلاحیت سازی کے لئے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی سے تعاون کے لئے اس انسٹی ٹیوٹ کو مرکز کے طور پر نامزد کیا ہے۔دفتر خارجہ نے ڈائریکٹر جنرل آئی اے ای اے کے دورہ پاکستان کے مقصد اور مصروفیات سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مسٹر رافیل ماریا نو گروسی کے دورے کے دوران پاکستان کا ایٹمی پروگرام روکنے پر بات نہیں ہوئی۔مسٹر رافیل سے جوہری توانائی کی پیداوار پر بات ہوئی ہے۔پاکستان جوہری توانائی کو زراعت اور طبی شعبے میں استعمال کرنے کا خواہاں ہے۔ ڈائریکٹر جنرل آئی اے ای اے سے پاکستانی حکام کی گفتگو سے امید پیدا ہوئی ہے کہ وطن عزیز کا ایک دیرینہ مطالبہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی منظور کرلے گی۔ماریا نوگروسی ایٹمی صلاحیت کے پرامن استعمال سے متعلق سفارتی سرگرمیوں سے گزشتہ 35برس سے منسلک ہیں۔وہ این پی ٹی کے صدرر ہے ہیں۔بعدازاں وہ نیو کلیئر سپلائر گروپ کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔بعض حلقے ان کے دورہ پاکستان کے متعلق منفی تبصرے کر کے شکوک و شبہات پیدا کرتے نظر آتے ہیں۔یقینا جوہری پروگرام اور اس سے متعلقہ امور کثیر الجہتی حساسیت کے حامل ہیں جنہیں تیکنیکی امور سے ناواقف اور نامکمل معلومات کے حامل افراد کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران بھارت کو غیر معمولی مدد دی گئی ہے۔امریکہ فرانس اور برطانیہ جیسے ارکان اس کی رکنیت کی حمایت کر چکے ہیں۔دوسری طرف پاکستان کی درخواست پر نیو کلیئر سپلائر گروپ سست روی سے کام کر رہا ہے۔نیو کلیئر سپلائر گروپ نے پاکستان اور بھارت کی درخواستیں 2016 سے التوا میں رکھی ہیں دونوں پر اعتراض ہے کہ انہوں نے این پی ٹی(جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کے معاہدے) پر دستخط نہیں کئے۔ماہرین کا خیال ہے کہ 2016 میں مسٹر رافیل گروسی نے رکنیت کے لئے جو فارمولہ ترتیب دیا تھاپاکستان اس پر بھارت کی نسبت زیادہ کاربند ہے۔یہ پاکستان کی سنجیدگی اور مہارت کا ثبوت ہے۔ بھارت یہ دلیل دیتا رہا ہے کہ نیو کلیئر سپلائر گروپ میں اس کی شمولیت گروپ کی ساکھ اور طاقت کو بڑھا سکتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس نظر آئی ہے۔خاص طور پر میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم (MTCR)میں شمولیت کے بعد سے بھارت کا طرز عمل اس کے دعوئوں کو جھوٹا ثابت کر رہا ہے۔پاکستان نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ نیو کلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت دینے کا پیمانہ سب درخواست گزار ممالک کے ساتھ مساوی ہونا چاہیے۔
پاکستان فوڈ سکیورٹی کے مسئلے سے دوچار ہے۔بڑھتی ہوئی آبادی کی بھوک مٹانے کے لئے اسے زرعی تحقیق میں استعمال جوہری ٹیکنالوجی درکار ہے۔کینسر سمیت کئی جان لیوا امراض کا علاج جوہری ٹیکنالوجی سے ہوتا ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ بھارت کی مسلسل جارحانہ پالیسی نے پاکستان کو پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی کی بجائے دفاعی شعبے کے پروگرام کو ترقی دینے پر مجبور کئے رکھا۔پاکستان میں ایٹمی تحفظ کے ضابطوں پر عملدرآمد کے معیار بھارت سمیت کئی ایٹمی ممالک سے زیادہ بہتر اور موثر ہیں۔انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کا پاکستانی اقدامات کو تسلی بخش قرار دینا خوش آئند ہے۔ان کے دورے کے دوران تکنیکی امور پر تبادلہ خیال سے پاکستان کو نیو کلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت ملنے میں سہولت کی امید کی جا سکتی ہے۔
پاکستان کے پاس یہ انتخاب موجود ہے کہ نیو کلیئر سپلائرگروپ کی رکنیت نہ ملنے کی صورت میں وہ سویلین مقاصد کے لئے جوہری ٹیکنالوجی کے استعمال کے لئے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ضابطوں کا احترام کرتے ہوئے چین سے تعاون حاصل کر لے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ اگر اس کو نیو کلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت سے محروم رکھ کر بھارت کو رکنیت دی جاتی ہے تو اسے کئی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔بھارت جوہری قوت کو تیزی سے جدت کا روپ دے سکتا ہے جو خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑ سکتا ہے۔ اس سے انٹرنیشنل سٹریٹجک ماحول تبدیل ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے معاشی مسائل کا حجم باقی مشکلات سے بڑھ رہا ہے۔معاشی مسائل کی بڑی وجہ توانائی کی کمی ہے۔نیو کلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت مل جانے سے پاکستان ایٹمی توانائی کے لئے ایندھن کی خریداری میں آزاد ہو گا۔
٭٭٭