رعنا کوثر
امریکہ میں رہنے والے ہمارے قارئین جو پاکستان سے آئے ہیں ان کو اپنے وطن میں بچپن سے یہ سکھایا جاتا ہے کہ جب بھی کوئی بوڑھا نظر آئے تو اس کا ہاتھ پکڑ کر سیڑھیوں سے نیچے اُتار دو، یا گاڑی میں بٹھا دو، اگر کوئی عورت نظر آئے تو اس کا بھاری سامان اُتارنے، چڑھانے میں مدد کرو، اگر کوئی بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو، اگر کوئی غریب ہے تو اس کو پیسے دے دو، کھانا کھلا دو، یوں ہم بچپن سے ہی نیکیاں کرنا سیکھ لیتے ہیں ہر گھر میں نانی،د ادی ہوتی ہیں، چچی، نانی، خالہ خدمتوں کے موقعے ملتے رہتے ہیں۔
بزرگوں کی خدمت غریبوں کی خدمت، عورتوں کا خیال، بیماروں کو نہ صرف جا کر پوچھنا ہوتا ہے بلکہ ان کی خدمت بھی کرنی پڑتی ہے۔ یوں لوگ ایک د وسرے کے سہارے رہتے ہیں۔امریکہ میں زندگی بدلی ہوئی لگتی ہے بزرگ اپنی خدمت نہیں لیتے اس لئے کہ وہ خود چلنا پھرنا زیادہ پسند کرتے ہیں انسانوں کی جگہ انہیں لاٹھی لے کر چلنا اچھا لگتا ہے یا یہ ان کی مجبوری ہو گئی ہے عورتیں اپنی مدد خود کرتی ہیں وہ کسی آدمی کی مدد نہیں لیتیں۔ ان کے بچے بھی بہت مصروف ہوتے ہیں انہیں بھیو الدین کی خدمت کا موقعہ نہیں ملتا۔ اب رہ گئے ہیں بیمار تو ان کیلئے ہسپتال میں ہر ممکن سہولت ہے گھر پر گورنمنٹ کی طرف سے مدد گار آجاتے ہیں جو کہ بیماروں اور بوڑھوں کا خیال رکھتے ہیں یوں خدمت کے مواقع ایک طرح سے محدود کر دیئے گئے ہیں۔ ایک خاندان صرف والدین اور بچوں پر محیط ہو کر رہ گیا ہے باقی رشتہ دار صرف ملنے ملانے کی حد تک ہیں۔
یہاں رہنے والے بچوں کو خدمت کے موقع بہت کم ملتے ہیں وہ اپنے بزرگوں کو بھی کم ہی دیکھتے ہیں۔ خاندان والے بہت زیادہ ہیں نہیں اور باہر والے تو خدمت لیتے ہی نہیں ہیں اس لئے یہاں خدمت کے مواقع کم ہیں حالانکہ یہاں سکولوں میں خدمت خلق پر بہت زور دیا جاتا ہے۔
اب جبکہ انتہائی مضر بیماری پھیلی ہوئی ہے لوگ بے حد تنہا ہو گئے ہیں بچے گھروں میں تنہا بیٹھے ہیں والدین کو جاب کرنا ہے بورھے اکیلے ہیں کوئی ان کے پاس آتا جانا نہیں کر سکتا، ان کے مدد گار بھی غائب ہو گئے ہیں بیماری اتنی ہے کہ ہسپتال بھر گئے ہیں اس لئے عام بیمار بوڑھے گھر میں ہی پڑے ہیں۔ ایسے میں خدمت کا موقع تو ہے مگر حالات اجازت نہیں دے رہے کہ کسی کی خدمت کی جا سکے کون اپنے قریب آنے دے گا۔ ہمارے ہم وطن بچپن کی دی ہوئی تربیت کے تحت ابھی بھی بے چین ہیں کہ کسی کی خدمت کریں۔مگر اب خدمت کا موقعہ ہی ہے کہ ہم اپنے پڑوسیوں کو فون کریں اگر وہ اکیلے ہیں تو ان کی خیریت لیں ان سے بات چیت کر کے ان کا دل بہلائیں، اگر کوئی اجازت دے تو اس کا سامان لا کر اس کے گھر کے آگے رکھ دیں۔ بہت سارے لوگ جاب سے محروم ہو چکے ہیں ان کے کھانے پینے کا بندوبست کر دیں اپنے پیسوں سے ان کیلئے راشن ڈلوا دیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جو لوگ ہسپتالوں میں کام کر رہے ہیں وہ یہ سوچ کر جائیں کہ اس وقت ہم انسانیت کی بہت بڑی خدمت کر رہے ہیں۔ لوگوں کو ان کی سخت ضرورت ہے خدمت کے مواقع مل رہے ہیں تو کر ہی لیں۔
٭٭٭