فضائل اہل بیتؓ!!!

0
222

 

محترم قارئین!اہل بیت نبوت کے مراتب عُلیا اور درجات کبریٰ واضح ہیں، قرآن اور احادیث ان کے فضائل سے بھرے پڑے ہیں، ارشاد خداوندی ہے۔ترجمعہ:”اے نبی کے گھر والو!بس خدا یہی چاہتا ہے کہ پلیدی کو تم سے دور فرما دے اور تمہیں خوب صاف اور پاک کردے“ (اصزاب) مسلم شریف کی روایت ہے کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو صبح کو ایک منقش کملی اوڑھ کر حضور اکرمﷺ کا شانہ نبوت سے باہر تشریف لائے اور حضرت حسن، حسین، علی اور فاطمہ رضی اللہ عنھم کو اپنی رحمت والی کملی مبارکہ میں داخل فرما لیا اور اپنے دست رحمت کو خداوند قدوس کی بار گاہ اقدس میں اُٹھا کر یہ دعا فرمائی ترجمعہ:”اے خداوند!یہ میرے اہل بیت اور میرے مخصوصین ہیں تو ان سے پلیدی کو دور فرما دے اور انہیںپاک اور ستھرا کردے“ رحمت عالمﷺ کی پیاری دعا سن کر حضرت ام المومنین مسلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں بھی ان میں سے ہوں تو ارشاد فرمایا کہ بے شک تم بہتری پر ہو اورایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ حضورﷺ نے ام المومنین حضرت ام مسلمہ رضی اللہ عنہ کے جواب میں ارشاد فرمایاکہ ہاں کیوں نہیں! اور یہ کہہ کر ان کو بھی اپنی مقدس کملی میں داخل فرما لیا، تو معلوم ہوا کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہ بھی اہل بیت میں داخل ہیں جب نجران کے عیسائی حضورﷺ سے مناظرہ کرنے کے لئے آئے تو آپﷺ نے اپنے دلائل نبوت سے آفتاب کی طرح پر ان پر حق کو ظاہر فرما دیا مگر پھر بھی وہ لوگ معاندانہ روش سے برابر جھگڑتے رہے تو اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے ”مباہلہ“ کی آیت نازل فرما دی اور حکم فرمایا کہ اے محبوب!”جو تم سے حضرت عیٰسی علیہ السلام کے بارے میں جھگڑا کریں جبکہ تمہارے پاس اس کا علم آچکا تو اے محبوب ان سے فرما دو کہ آﺅ ہم بلائیں اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنی جانوں کو اور تمہاری جانوں کو پھر ہم گڑ گڑا کر دعا مانگیں اور جھوٹوں پراللہ کی لعنت ڈالیں“۔جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ نے نجران کے نصاریٰ کو میدان میں نکل کر مباحثہ کرنے کی دعوت دی، چنانچہ جب صبح کو نصرانیوں کا گروہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا تو یہ دیکھا کہ حضورﷺ کی گود میں امام حسین ہیں اور دست اقدس میں امام حسن کا ہاتھ ہے اور حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ حضورﷺ کے پیچھے ہیںاور حضورﷺ ان سب سے فرما رہے ہیں کہ جب میں دعا کروں تو تم سب نے”آمین“ کہنا ہے کہ نجران کے سب سے بڑے پادری عبدالمسیح نے جب ان حضرات کو دیکھا تو کہنے لگا کہ اے جماعت نصاریٰ ہیں اے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے کسی پہاڑ کو ہٹا دینے کی دعا کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا سے پہاڑ کو ہٹا دے گا۔لہٰذا ہرگز ہرگز ان سے مباہلہ نہ کرو ورنہ تم سب ہلاک ہو جاﺅ گے اور روئے زمین پر کوئی نصرانی باقی نہ رہے گا چنانچہ نجران کے نصرانیوں نے ”جزیہ“ دینا منظور کیا مگر مباہلہ کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے۔اس کے بعد حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے کہ نجران والوں پر عذاب بہت قریب آچکا تھا اگر وہ لوگ مجھ سے مباہلہ کرتے تو بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مسخ کردیئے جاتے اور قہر الٰہی کی آگ سے جنگل جل جاتے اور وہاں کے چرندو پرند تک نیست ونابود ہوجاتے اور ایک سال کے اندر تمام روئے زمین کے نصاریٰ ہلاک وبرباد ہو جاتے۔غور فرمائیے! کہ مباہلہ کے لئے یہ بات ٹھہری تھی کہ اے نصرانیو! تم اپنے بیٹوں کو میدان میں لے کر آﺅاور ہم اپنے بیٹوں کو تم اپنی عورتوں کو لے کر آﺅ اور ہم اپنی عورتوں کو لے کر آتے ہیں، تم خود آﺅ اور ہم خود آئیں۔ اس موقع پر جناب رحمت عالمﷺ کی نگاہ نبوت نے تمام دنیائے اسلام میں سے جن پاک جانوں کو منتخب فرمایا وہ حضرت علی، فاطمہ، حسن وحسین رضی اللہ عنہ ہیں یہی وجہ ہے کہ امام حسن وحسین رضی اللہ عنھما قیامت کبریٰ تک ابنائے رسولﷺ کہلاتے رہیں گے کیونکہ حضورﷺ نے ان دونوں کو اپنا بیٹافرمایا ہے۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب مباہلہ کے لئے ان مقدس جانوں کو ساتھ لے کر حضورﷺ گھر سے باہر نکلے تو یہ فرمایا تو یہ فرمایا کہ اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔اللہ ان کے درجے بلند فرمائے۔ہمیں ان کے جراتوں اور عبادتوں کے فیضان سے حصہ عطا فرمائے اور ان کے ساتھ سچی وابستگی عطا فرمائے۔(آمین)۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here