نوید اطہر، لاہور
پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک کے لئے یہ خبر تشویشناک ہے کہ چین میں ڈھائی ہزار سے زائد جانیں لینے والا کورونا وائرس اب ہمسایہ ممالک میں نمودار ہو رہا ہے۔ ایران میں کورونا وائرس سے اب تک 10کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ افغانستان اور بحرین میں متعدد افراد اس مہلک وائرس کا شکار ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اٹلی‘جنوبی کوریا‘ فلپائن اور متعدد دیگر ممالک میں بھی کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ پاکستان نے ایران اور افغانستان میں کورونا کی موجودگی کے باعث ہائی الرٹ کی ہدایت کر دی ہے۔ چین کو اب تک تجارتی سرگرمیاں کم ہونے کے باعث ایک کھرب 20ارب ڈالر کے لگ بھگ کا نقصان ہو چکا ہے۔ ایران پہلے ہی امریکی پابندیوں کا شکار ہے وہاں مرض نے شدت پکڑی تو اسے قابو کرنا مشکل ہو سکتا ہے لیکن سب سے زیادہ فکرمندی کی بات افغانستان کے حوالے سے ہے جہاں کسی طرح کا انتظامی اور طبی ڈھانچہ اس مہلک وائرس سے نمٹنے کے لئے موجود نہیں۔ایران سے آنے والے افراد کی سرحد پر سکریننگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں ایرانی حکام سے رابطہ کیا ہے تاکہ کورونا کی یلغار کا مل کر مقابلہ کیا جا سکے۔ انسانی تاریخ قدرتی آفات بیماریوں اور وباﺅں کے حملوں سے بھری پڑی ہے۔ لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے لیکن انسانی عقل اور ہنر نے آخر کار ہر مشکل کا حل تلاش کر لیا۔کورونا وائرس ایک وبا ہے جس سے نمٹنے کے لئے خطے کے تمام ممالک کو مل کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ کورونا وائرس یہ وائرس ممالیہ جانوروں اور پرندوں میں مختلف معمولی اور غیر معمولی بیماریوں کا سبب بنتا ہے، مثلاً: گائے اور خنزیر کے لیے اسہال کا باعث ہے، اسی طرح انسانوں میں سانس پھولنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ عموماً اس کے اثرات معمولی اور خفیف ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات کسی غیر معمولی صورت حال میں مہلک بھی ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاج یا روک تھام کے لیے اب تک کوئی تصدیق شدہ علاج یا دوا دریافت نہیں ہو سکی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے ذریعے نامزد کردہ nCov-2019 نامی کورونا وائرس کی ایک نئی وبا 31 دسمبر 2019ء سے چین میں عام ہوئی جو آہستہ آہستہ وبائی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ وائرس اس لیے خطرناک ہے کہ یہ انسان سے انسان تک پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پوری دنیا اس وقت پریشانی میں ہے اور خاص طور پر چین میں اس وقت حالات انتہائی دگرگوں ہیں لیکن چین کا ماضی دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ چین اس وبا سے نمٹ لے گا۔ ہزار بستروں کا اسپتال بنانا ہمارے سامنے ہے۔ یہ چین کے اقدامات ہی تھے کہ شائد یہ وائرس پوری دنیا کو ابھی لپیٹ میں نہیں لے سکا لیکن اب اس وائرس کی بازگشت ایران میں سنائی دی جانے لگی ہے اور شنید ہے کہ قم میں چینی شخص کی آمد کی وجہ سے یہ وائرس وہاں پھیلنا شروع ہوا۔ کیا ہم اس لمحے تیار ہیں؟
چین میں پاکستانی طلبا کی بہت بڑی تعداد موجود ہے اور اس حوالے سے گزشتہ دنوں مشیر صحت اور مشیر اوورسیز پاکستانیز کی پریس کانفرنس میں ہم نے ایک المیہ دیکھا کہ کیسے والدین اپنے بچوں کے لیے پریشان ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں اپنائی اور سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ چین سے پاکستانی طلبا کی پریشان کن ویڈیوز سامنے آنے لگیں۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ پوری دنیا کے لوگ چین میں موجود تھے؟ کیا انہوں نے اپنے شہریوں کو ایسے ہی ڈیل کی جیسے ہم نے؟ جاپان کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ بحری جہاز جس میں کورونا مریضوں کی بڑی تعداد موجود ہے، وہ بھی آپ پڑھ، دیکھ اور سن چکے ہوں گے لیکن ان تمام ممالک نے فوری ردعمل دیتے ہوئے ضروری اقدامات کیے اور آپ کو اس وقت چاہے اخبارات دیکھیں یا نیوز چینلز، ہیجانی کیفیت کسی ملک میں نظر نہیں آتی۔ ہمارا اب مزید امتحان شروع ہوا چاہتا ہے۔
چین نے کسی نہ کسی طرح اس وبا کو ایک شہر یا کچھ علاقے تک محدود کیا ہوا ہے لیکن ایران جو پہلے ہی پابندیوں کا شکار ہے، وہاں اس وبا کا پھوٹنا پوری دنیا کیلئے خطرے کی علامت ہے۔ ایران کے پاس نہ تو مناسب طبی سہولیات موجود ہیں، نہ ہی ان کے پاس اس وبا سے نمٹنے کےلئے مناسب تکنیکی سہولیات موجود ہوں گی۔ ایران ایک لمبے عرصے سے پابندیوں کا شکار ہے۔ اس لیے وہاں تحقیق و ترقی ایک دائرے میں گھوم رہی ہے کہ ٹیکنالوجی کا تبادلہ ممکن نہیں ہوسکا۔ ایسی صورت حال میں وائرس کا اس خطے میں پہنچنا، پاکستان کےلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ بلوچستان سے بات کی اور حالات کا جائزہ لیا۔ لیکن یہ کافی اس لیے نہیں کہ بلوچستان حکومت کے پاس کیا تکنیکی سہولیات اس مسئلے سے نمٹنے کےلئے موجود ہوں گی؟ یقیناً نہیں۔ کیوں کہ تفتان بارڈر ایریا ویسے بھی اتنا ترقی یافتہ نہیں۔ مزید یہ کہ پاکستانی زائرین جو تفتان بارڈر سے پاکستان کی جانب موجود ہیں ان کو تو واپس کیا جاسکتا ہے۔ لیکن تفتان بارڈر پر ایران کی جانب بہت سے زائرین پاکستان واپسی کے منتظر تھے کہ بارڈر کو بند کرنا پڑا۔ کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس بارڈر بند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ لیکن ہمیں ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا تاکہ چین میں موجود پاکستانیوں جیسے حالات یہاں پیدا نہ ہوں۔ ایرانی حکام سے رابطہ کرکے ہنگامی بنیادوں پر ایرانی حدود کے اندر بھی اقدامات کی پیش کش کرنا ہوگی کہ یہ ہمارے لیے بہتر ہے۔ ہم ایسا نہیں کریں گے تو پاکستان کا پسماندہ صوبہ خطرے میں پڑجائے گا۔
25 جنوری 2020 ء کو چین کے 13 شہروں میں ایمرجنسی لگا دی گئی ہے جبکہ وائرس کی شناخت یورپ سمیت کئی دوسرے ممالک میں بھی ہو چکی ہے۔ کروناوائرس کے ذریعہ انسانوں کولاحق ہونے والی بیماریوں کی اس وقت 4 سے پانچ قسمیں ہیں۔ سب سے زیادہ پائی جانے والی قسم “انسانی کرونا سارس CoV” ہے جو سارس بیماری کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس سے اوپری اور نچلے دونوں نظام تنفس یکساں متاثر ہوتے ہیں اور بسا اوقات آنت اور معدے کا نمونیا ہو جاتا ہے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ کرونا وائرس عام طور پر بالغ افراد کو سردی کے نزلہ کی وجہ سے سب سے زیادہ لاحق ہوتا ہے۔عام سردی میں ہونے والے نزلہ کی طرح کرونا وائرس کے اثر کا اندازہ لگانا مشکل ہے، اسی طرح لیبارٹری میں انسانی کورونا کی تحقیق و نشو و نما بھی مشکل ہے۔ کورونا نمونیا، وائرس نمونیا یا تو براہ راست یا ثانوی جرثومی نمونیا کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ مرغیوں میں متعدی برونکائٹس وائرس (IBV) نہ صرف نظام تنفس میں اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ پیشاب کے راستہ کو بھی متاثر کرتے ہیں اور اس کا امکان رہتا ہے کہ یہ وائرس مرغی کے تمام اعضا میں پھیل جائے۔اسی طرح کورونا وائرس کھیت کے جانوروں اور پالتو جانوروں میں بھی بہت سی بیماریوں کا ذریعہ بنتا ہے جن میں سے کچھ خطرناک ہوتی ہیں اور فصلوں کو بھی نقصان پہنچا دیتی ہیں۔کورونا وائرس کا کوئی خاص تصدیق شدہ علاج یا دوا نہیں ہے البتہ چند احتیاطی تدابیر بتائی جاتی ہیں۔ صابن یا پانی سے بار بار ہاتھ دھونا۔ گندے ہاتھوں سے ناک، آنکھ اور منہ کو چھونے سے گریز کرنا۔ متاثرہ افراد سے براہ راست چھونے اور ان کی استعمال کی گئی چیزوں سے دور رہنا۔ پاکستان کے لئے اپنے تین ہمسایہ ممالک میں کرونا وائرس کی موجودگی کی خبر خوشگوار نہیں۔ چین میں سینکڑوں پاکستانی طلباء اور تاجر موجود ہیں۔ انہیں احتیاطی تدابیر کے طور پر واپس نہیں لایا جا رہا۔ ایران میں کرونا کی اطلاع پر زائرین کی آمدورفت بند کر دی گئی ہے لیکن اصل چیلنج افغانستان سے متاثرہ افراد کے پاکستان میں داخلے کو روکنا ہے۔ افغانستان سے پاکستان آمدورفت صرف باقاعدہ گیٹ سے نہیں ہوتی بلکہ سرحد پر ایسے کئی راستے ہیں جہاں پر سکریننگ کا انتظام ناممکن ہے۔ یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ حکومت معمول کے حفاظتی اقدامات پر اکتفا نہ کرے بلکہ سرحدوں پر مکمل حفاظتی لباس اور ماسک والے تربیت یافتہ عملے کو تعینات کر کے سکریننگ کے عمل کو ہر ممکن حد تک یقینی بنائے۔ ہمسایہ ممالک سے رابطہ کر کے سرحدوں پر طبی امداد اور کرونا وارڈ قائم کئے جائیں۔ حیاتیاتی اور جراثیمی ہتھیاروں کو جاننے والے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ اس مہلک وائرس کو پاکستان سے دور رکھا جا سکے۔کرونا کا وائرس جس تیزی سے دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل رہا ہے اس سے بین الاقوامی سطح پر باہمی تعاون کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے‘ غریب اور پسماندہ ممالک تک یہ وائرس پہنچ گیا تو آدھی دنیا ملیا میٹ ہو سکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کو چاہیے کہ امریکہ اور ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ دیگر ممالک کی مدد سے صورت حال کو مزید سنگین ہونے سے بچانے کی سعی کرے۔