دیواروں کے کان!!!

0
124
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

سید کاظم رضا نقوی

پرانی کہاوت بات بات پر کہی جاتی تھی کہ آہستہ بات کرو ،دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں !!
اس حالیہ زمانے میں جب انسان اتنا خود غرض ، مادہ پرست اور خود پسندی کے خول میں بند کہ شائد وہ سننا ہی نہیں چاہتا یا شائد صرف وہی سنتا ہے جس چیز کو پسند کرتا ہے !!!
اب دیواروں کے کان ہوں یا نہ ہوں اسکی ضرورت بھی نہیں لیکن کانوں میں دیواریں ضرور ہیں۔
خیر بڑے لوگوں کی بڑی باتیں جو چاہے کریں اور جو وہ کریں وہی ٹھیک اور غلط لیکن مجال ہے کہ دنیا میں ان کو کوئی اعتراض کرنے کی جرا¿ت کرتا ہو !!!
ایک سفید گھر میں بیٹھے سفید ہاتھی جسکی آنکھیں بھی سفید ہی ہیں اور اس میں بال کس کا ہے کچھ کہا نہیں جاسکتا !!!ویسے تو وہ ماضی کے حوالے سے دیکھا جائے تو انتہائی مغرور اور بے پرواہ اور دوسروں کا مذاق اڑانے والا جو چائے والے کی انگریزی کی نقلیں اتارتا ہے اور کیمرے کے سامنے بغل گیریاں اور مصنوعی محبت کا جال تانے ہمیشہ تیار رہتا ہے کس سے کس وقت کون سا فائدہ اٹھایا جائے جب سے ثالثی کردار کا ذکر آیا ہے حالات سدھرنے کے بجائے اور بگڑ چکے ہیں !!!
اب یہ گھر کا اثر ہے یا گھر والوں کا کیونکہ پچھلے پندرہ برس سے ہر پنج سالہ دور کسی نہ کسی مسئلے پر خاص توجہ دی گئی عراق میں جھوٹی خبر پر چڑھائی کرنے والے صاحب بہادر کو سفید برفانی ریچھوں کی فکر تھی !!
انکے بعد آنے والے حضرت چھوٹی مچھلیوں کی نسل پر کافی فکر مند نظر آئے اور انکے دور میں شہری شکاری قوانین بھی شکار کیلئے بدلے گئے !!
اب حالیہ مکین سفید گھر تو عالمی حدت بڑھ جانے کے اور گرین گیسز کے سرے سے حامی ہی نہیں ہیں لیکن چائے والے نے انکی پسند کے برخلاف ان ہی مسائل کو بیان کیا !!!!
مسائل تو ہیں اور لاتعداد ہیں لیکن ایک مخلوق انسان بھی ہے شائد ان جانوروں کے تحفظ اور عالمی درجہ حرارت کے موضوعات میں لوگ ان کو بھول چکے ہیں مخصوص لوگوں کے سرد روئیے اور بے حسی نے اب وہاں لاکھڑا کیا ہے کہ انسانی بقاء اور انسانی بحران سے نمٹنے کا کوئی ذمہ لینے کو تیار نہیں ہے !!!!
اب مسائل کو دیواریں کھڑی کرکے نمٹانے کا طریقہ ایجاد ہوچلا ہے کہیں تو یہ سرحد پر مٹی گارے اور کنکریٹ سے اور جہاں ضرورت پڑی تو خار دار تاروں سے کھڑی کرادی گئیں ہیں ویسے تو یہ دیواریں رشتوں میں گھروں میں اور ہر جگہ مل جاتی ہیں !!!
اب انتظار ہے کہ کوئی ایسا مسیحا ملے جو ان دیواروں کا کوئی توڑ نکالے ایک وادی میں مقفل انسان جنکے ہر گلی کوچہ میں مسلح فوجی اہلکار کھڑے ہیں انہیں بھی جینے کا حق ہے شائد یہ انسان بھی ان مچھلیوں اور سفید برفانی ریچھوں کی طرح اپنی بقاءنسل کا حق رکھتے ہیں !!
عمران خان صاحب کی تقریر اور اسکی گونج پوری دنیا میں سنی گئی جس پر لاتعداد پروگرام چل رہے ہیں جس طرح انہوں نے مسلم ا±مّہ کا مسئلہ پیش کیا اور کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی، اس سے پہلے اسکی کوءمثال نہیں ملتی !!!!
امید ہے ذمہ داران کی کانوں کی دیواروں میں اتنے شگاف ضرور پڑگئے ہونگے کہ پیغام پہنچ چکا ہو اس سے پہلے کہ یہ پوری دنیا کشمیر کے حوالے سے سوچ بدلے کہ اس دیرینہ مسئلے کو اب حل کیا جائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here