جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
آج جب میں یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو گزشتہ دو روز کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ¿ بھارت اور ان کے احمد آباد میں خطاب کے دوران پاکستان کے حوالے سے مثبت بیان اور امریکہ و پاکستان کے تعلقات میں پیش رفت اور پاکستان کی تعریف کی بازگشت اس امر کی نشاندہی نظر آرہی ہے کہ بھارت سے امریکہ کی بوجوہ رفاقت اور خطہ میں بھارت کو خصوصیت دینے کے باوجود پاکستان امریکہ کے مفادات کیلئے اہم حیثیت رکھتا ہے۔ ہم نے اپنے ایک پچھلے کالم میں امریکہ کے پاکستان سے تعلقات پر تجزئیے میں بیان کیا تھا کہ امریکہ کی دوستی میں پاکستان کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنا ہی مقصد ہوتا ہے، وہ خواہ دھونس دھمکی سے ہو، امداد و تعاون کا لالچ دے کر یا دلاسے، تسلی کی صورت میں ہو، ٹرمپ کے احمد آباد میں پاکستان کی تعریف پر جہاں بھارت کی سیاسی و حکومتی اشرافیہ اور میڈیا اس بات پر چیں بہ جبیں ہے وہیں پاکستان کے بقراط اور میڈیا اس پر بغلیں بجا رہے ہیں اور یوں ظاہر کیا جا رہا ہے کہ گویا امریکہ پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں فوقیت دینے پر آمادہ ہے۔ ہمارے خیال میں یہ سوچ فارسی کی اس مثال کی تصویر ہے۔ ایں خیال است و محال است و جنوں (یہ خیال ہی ہے مشکل ہے اور پاگل پن)
امریکی سیاست اور فیصلہ سازی کی بنیاد اس کے اپنے داخلی اور عالمی تناظر میں فائدے اور وقت کے حساب سے ہوا کرتی ہے اور اس حوالے سے وہ اپنے انتہائی مخالفین کو وقتی طور پر گلے لگانے اور مطلوبہ اقدامات (خواہ بادی¿ النظر میں وہ امریکی پالیسیوں کے برعکس کیوں نہ ہوں) کرنے سے نہیں ہچکچاتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں خصوصاً 2020ءکے انتخابات کے سال کے تناظر میں ٹرمپ کے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاءکے وعدے پر عملدرآمد کیلئے پاکستان کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ طالبان کو امریکہ سے مذاکرات کیلئے آمادہ کرنے اور مذاکرات میں اس حد تک پیش رفت کہ افغانستان میں متحارب تمام گروپ افغان امن عمل میں شامل ہوں، پاکستانی ریاست و حکومت کی کوششوں کا امریکی پالیسی سازوں اور انتظامیہ کو بخوبی ادراک ہے۔ 29 فروری کو امریکہ اور افغان طالبان، حکومت و دیگر گروپوں کے درمیان معاہدے کے پیش نظر ٹرمپ کی بھارت میں پاکستان کی تعریف اسی غرض کے پیش نظر ہے۔ اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے 20 سال سے دہشت گرد قرار دیئے جانے والے سراج الدین حقانی کا نیویارک ٹائمز میں انٹرویو تھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کو اگرچہ امریکی سیاست کے حوالے سے ایک کاروباری شخص قرار دیتے اور نسلی متعصب گردانتے ہوئے سیاسی طور پر متنازعہ تصور کیا جاتا ہے لیکن درحقیقت وہ اپنی کامیابی کیلئے اپنی کاروباری سوچ کے مطابق کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرتا۔
افغان امن عمل کیلئے پاکستان کے کردار نیز وزیراعظم عمران خان کے دورہ¿ امریکہ، ٹرمپ سے ملاقاتوں اور گزشتہ ڈیڑھ سال میں کشمیر سمیت مختلف امور پر پاکستان کی مثبت خارجہ پالیسی سے عالمی منظر نامے میں پاکستان کا روشن چہرہ سامنے آیا ہے۔ اپنے مفاد کے پیش نظر ٹرمپ کی پاکستان کی تعریف کو اس حوالے سے بھی شمار کیا جا سکتا ہے لیکن کشمیر کے ایشو اور شہریت ترمیمی ایکت کے حوالے سے کوئی واضح مو¿قف سامنے نہیں آیا۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ٹرمپ کے دورے سے قبل وائٹ ہاﺅس کے ترجمان کے اس حوالے سے مو¿قف کے باوجود ان ایشوز پر مودی اور ٹرمپ کی ملاقات میں کیا طے ہوا۔ جواباً یہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی اور ٹرمپ کی کشمیر کے ایشو پر ثالثی کی تجویز امریکہ کے بھارت کو ترجیح دینے کی بھینٹ چڑھ گئی اور محض انسانی حقوق کے حوالے سے تشویش محدود ہو گئی۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ پاکستان اور وزیراعظم کی کامیاب خارجہ پالیسی کے باوجود آخر وہ کون سے عوامل ہیں جو پاکستان کے مضوبط عالمی تشخص کی راہ میں سد باب بن رہے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ممالک اور اقوام کی اہمیت ان کے امور مملکت، ریاست و سیاست سے متعین ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت کی خارجہ حکمت عملی تو قابل تحسین ہے لیکن امور مملکت و سیاست میں ناگفتہ بہ حالات امید افزاءنہیں ہیں۔ گزشتہ 17 ماہ میں داخلی طور پر سیاسی، معاشی اور عوامی معاملات کی جو صورتحال رہی ہے اس کا تجزیہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ حکومت اور مخالف سیاسی اشرافیہ کے درمیان تنازعہ کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ ایک دوسرے کےخلاف الزام تراشی، دشنام اور مخالفانہ رویوں کے باعث نہ قانون سازی و پارلیمانی امور پر کوئی توجہ دی جا رہی ہے نہ عوامی معاملات و مشکلات کا حل سامنے آرہا ہے اور نہ معاشی صورتحال میں بہتری کے امکانات نظر آتے ہیں۔ FATF میں تمام کوششوں کے باوجود جون تک ٹرخا دیا گیا ہے۔
مہنگائی کےساتھ ذخیرہ اندوزوی، کاروباری سرگرمیوں میں انحطاط، افراط زر میں اضافہ، گورننس میں خرابی اور متعدد معاملات میں غیر ذمہ داری کے واقعات نے داخلی صورتحال کو جس طرح سے داغدار کیا ہے وہ یقیناً عالمی منظر نامے میں پاکستان کے روشن چہرے کو ماند کرنے کا باعث ہے۔ ہم مسلسل اپنے کالموں میں ان معاملات کی نشاندہی کرتے رہے ہیں اور خصوصاً وزیراعظم کے گوش گذار کرتے رہے ہیں کہ اپنی حکومت خصوصاً اپنی کابینہ کے ارکان کی کارکردگی پر توجہ دیں کہ ان کے غلط اقدامات و فیصلے وزیراعظم کی مقبولیت اور کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔ غلط مشوروں اور اقدامات کا ایک تسلسل ہے جس سے انتظامی، احتسابی، آئینی،عدالتوں اور عوامی معاملات میں حکومتی ناکامی اور نا اہلی سامنے آئی ہے۔ کپتان کی معاشی ٹیم کی ناکامی کا اندازہ اس حقیقت سے لگا لیں کہ خود کپتان کے منتخب کردہ چیئرمین FBR شبر زیدی طبی رخصت پر گئے اور واپس آنے پر تیار نہیں ہیں۔
آئی ایم ایف کے درآمد شدہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور کپتان کے پسندیدہ اسد عمر میں اختلافات زبان زد عام ہیں اور معیشت کا حال مزید خراب ہو رہا ہے۔ کابینہ میں گروپنگ اور حلیفوں کے قصے بھی اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہے۔ یہی نہیں حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ بہت سے معاملات میں خود وزیراعظم بھی کابینہ کے فیصلوں سے لا علم رہتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال سوشل میڈیا ریگولیشن اور قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس ہیں۔
پچھلا پورا ہفتہ سپریم کورٹ میں سابق اٹارنی جنرل انور منصور کے قابل اعتراض مو¿قف، سپریم کورٹ کے دس رکنی بنچ کے رد عمل پر انور منصور کے استعفے، وزیر قانون کے اٹارنی جنرل کے مو¿قف سے اختلاف اور نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کے کیس میں مفادات کے ٹکراﺅ کی توجیح پر وفاقی حکومت کی نمائندگی سے معذرت نے قانونی ٹیم کی اہلیت کا بھی بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ فروغ نسیم کی انور منصور سے معافی نے اس مو¿قف کا بھی پول کھول دیا کہ ججز کی جاسوسی حکومت کا بیانیہ نہیں تھا۔ اس حوالے سے شہزاد اکبر کے ایسٹس ریکوری یونٹ کی حقیقت بھی سامنے آگئی کہ اس کی کوئی قانونی یا آئینی حیثیت نہیں اور کروڑوں کے خرچ کے باوجود کوئی مالی فائدہ نہیں ہو سکتا ہے۔ آج کے گلوبل ایرینا میں میڈیا اور سوشل میڈیا کے باعث کوئی بھی چیز عالمی منظر نامہ سے پوشیدہ نہیں رہی تو ایسے میں ہمارے داخلی معاملات سے ہمیں دنیا میں سرخروئی کیسے مل سکتی ہے۔ اپوزیشن کے بے محابہ مخالفانہ روئیوں، لندن پلان کی فرضی کہانیوں اور بلاول و فضل الرحمن کے معاندانہ اعلانات کے رد عمل کیلئے وزیراعظم کو اپنی کارکردگی کو بہتر بنانا ضروری ہے اور اس کیلئے صحیح فیصلوں، رائٹ مین فار دی رائٹ جاب اور حکومتی و انتظامی معاملات پر توجہ دینی ہوگی۔ یہ صحیح ہے کہ فیصلہ سازوں کے سامنے اس وقت عمران خان کا کوئی نعم البدل نہیں ہے لیکن بہتری کیلئے حالات کی تبدیلی میں کوئی وقت نہیں لگتا ہے۔ فلاحی کاموں کا اہتمام یقیناً بہتری کا راستہ ہے لیکن ریاست اور نظام کی بہتری کیلئے لنگر خانے کی جگہ کارخانے، بیروزگاروں اور غریبوں کیلئے اثاثہ و کفالت پروگرام سے بڑھ کر روزگار کے مواقع اور نوکریاں حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے۔ ہماری خارجی کامیابی اسی وقت متاثر کن ہوگی جب داخلی طور پر ہم کامیاب و خوشحال ہونگے۔ سوچیئے کہ عالمی برادری میں اہم مقام حاصل کرنے کی کس کس راہ پر چلنا ہے محض ٹرمپ کی تعریف ہی کافی نہیں!!!