محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضانقوی کا سلام پہنچے، محرم الحرام کے مقدس مہینے میں جہاں پوری دنیا میں نواسہ رسول پاک صل اللہ علیہ وسلم کی یاد میں مجالس جلسہ جلوس اور تعزیہ و نوحہ کے زریعے اس ماہ کو منایا جارہا ہے اور امام عالی مقام کے چاہنے والے ان سے محبت و عقیدت کو درس اور واقعہ کربلا کو اجاگر کررہے ہیں وہیں کچھ شیطان صفت اور لشکر یذید سے بدتر لوگ ایسی حرکتیں کررہے ہیں کہ انسان توبہ کرنے لگ جائے انکے کالے کرتوت اور پلاننگ دیکھ کر انٹرنیٹ پر وائرل جملا یاد آتا ہے یہ شیطان کے بھی استاد ہیں !!
مملکت پاک میں اسلام آباد کی عدالت میں ایف آء اے نے چار سو مقدمات درج کیئے ہیں جو توھین مذھب کی دفعہ سی کے تحت ہوئے اکثریت کے پیچھے واٹس اپ گروپ کارفرما ہے آپ کو کسی بھی واٹس اپ گروپ میں ایڈ کیا جاتا ہے وہاں آپ دیکھتے ہیں کوء گستاخانہ مواد شیئر ہوا آپ سے یہ سب دیکھ کر رہا نہیں جاتا اور آپ گروپ ایڈمن کو شکایت کرتے ہیں وہ گروپ ایڈمن آپکو کہتا/کہتی ہے کہ اس کو وہ مواد نظر نہیں آرہا کیا آپ اس کو فارورڈ کرسکتے ہیں بس یہی غلطی ہے اور۔ بات وہ گروپ ایڈمن ایک شکاری ہے جو آپ کو جال میں پھنسانے میں کامیاب رہا آپ نے جیسے ہی وہ متنازعہ اور توھین آمیز مواد فارورڈ کیا آپ کے خلاف مقدمہ درج اور ایف آء اے اہلکار ایک دو روز میں آپ کو گھر سے گرفتار کر لے جاتے ہیں اس کام میں ایک خاتون کا نام اور تصویر وائرل ہورہی ہے تو آپ کوء بھی خاتون معتبر نام دیکھ کر اس جال میں نہ آئیں اور ایسے میسجز فوری ڈیلیٹ کردیں انکو اپنی طرف سے کسی بھی گروپ ایڈمن کو شیئر نہ کریں اور ایسے نامعلوم واٹس اپ گروپ سے فوری نکل جائیں کیونکہ مقدمہ آپکے فون نمبر کو پڑتال کرکے آپکے نام کو میچ کرکے درج کیا جاتا ہے سنا ہے اس پورے کام میں نہ صرف وہ خاتون بلکہ کچھ انتہاء مضبوط اثر ورسوخ رکھنے والے وکیل اور ججز بھی شامل ہیں اور سب کی ملی نگے سے یہ کام جاری ہے لامحالہ حکومتی شرکت کے بغیر یہ سب ممکن نہیں جو بدعنوان لوگوں کی جیب بھرنے اور شرفا کی تزلیل و فکر کا باعث بن رہا ہے ۔اس بابت مجھے سقراط کا معیار اور ایک کسوٹی ملی کم از کم اس کو ہی اگر قابل عمل بنایا جاتا تو بہت سے مقدمے کبھی درج نہ ہوتے اور لوگ اپنی جان مال و عزت محفوظ رکھ پاتے آپ وہ حکایت پڑھیں جو مندرجہ زیل ہے!
افلا طون اپنے استاد سقراط کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں ہرزہ سرائی کر رہا تھا سقراط نے مسکرا کر پوچھا وہ کیا کہہ رہا تھا؟
افلاطون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا آپ کے بارے میں کہہ رہ تھا سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا اور کہا
آپ یہ بات سنانے سے پہلے اسے تین کی کسوٹی پر رکھو اس کا تجزیہ کرو اور اس کے بعد فیصلہ کرو کیا تمہیں یہ بات مجھے بتانی چاہیے۔
افلاطون نے عرض کیا یا استاد تین کی کسوٹی کیا ہے؟
سقراط بولا کیا تمہیں یقین ہے تم مجھے جو بات بتانے لگے ہو یہ بات سو فیصد سچ ہے افلاطون نے فورا انکار میں سر ہلا دیا۔
سقراط نے ہنس کر کہا پھر یہ بات بتانے کا تمہیں اور مجھے کیا فائدہ ہوگا افلاطون خاموشی سے سقراط کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا سقراط نے کہا یہ پہلی کسوٹی تھی
ہم اب دوسری کسوٹی کی طرف آتے ہیں۔ مجھے تم جوبات بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے؟ افلاطون نے انکار میں سر ہلا کر جواب دیا جی نہیں یہ بری بات ہے سقراط نے مسکرا کر کہا کیا تم یہ سمجھتے ہو تمہیں اپنے استاد کو بری بات بتانی چاہیے؟
افلاطون نے انکار میں سر ہلا دیا سقراط بولا گویا یہ بات دوسری کسوٹی پر بھی پورا نہیں اترتی افلاطون خاموش رہا سقراط نے ذرا سا رک کر کہا
اور آخری کسوٹی یہ بتائو وہ بات جو تم مجھے بتانے لگے ہو کیا یہ میرے لیے فائدہ مند ہے؟ افلاطون نے انکار میں سر ہلایا اور عرض کیا یا استاد یہ بات ہر گز ہرگز آپ کے لیے فائدہ مند نہیں سقراط نے ہنس کر کہا اگر یہ بات میرے لیے فائدہ مند نہیں تو پھر اس کے بتانے کی کیا ضرورت ہے؟
سقراط نے گفتگو کے یہ تین اصول آج سے چوبیس سو سال قبل وضع کر دیے تھے سقراط کے تمام شاگرد اس پر عمل کرتے تھے وہ گفتگو سے قبل بات کو تین کسوٹیوں پر پرکھتے تھے
کیا یہ بات سو فیصد درست ہے
کیا یہ بات اچھی ہے اور
کیا یہ بات سننے والوں کے لیے مفید ہے؟
اگر وہ بات تینوں کسوٹیوں پر پوری اترتی تھی تو وہ بے دھڑک بات کر دیتے تھے اور اگر وہ کسی کسوٹی پر پوری نہ اترتی یا پھر اس میں کوئی ایک عنصر کم ہوتا تو وہ خاموش ہو جاتے تھے،دعا ہے ان پیدا گیروں اور جال بچھانے والے لوگوں سے ہر مسلمان کلمہ گو محفوظ رہے کیونکہ ایسے لوگوں میں انسانیت ختم ہوچکی وہ دہرئیے ہیں شیطان کے پجاری اور پیسے کی ہوس لیئے شیطان کے پیروکار ہیں جو یہ سب کچھ رہے ہیں ۔تو محترم قارئین احتیاط کریں اپنے بچوں کو خواتین کو تاکید کریں اور یہ پیغام پھیلائیں کہ وہ کسی ناخوشگوار حادثے سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔
٭٭٭













