دو رُخی اور عالمی منظر نامہ!!!

0
785
جاوید رانا

سال 2025ء اپنے آغاز سے ہی بنی نوع انسان اور دنیا کیلئے آزمائشوں، دُکھوں، ارضی و سماوی آفات کا آئینہ دار بنا ہوا ہے، پے درپے ایسے حالات و واقعات پیش آرہے ہیں جو عالمی، علاقائی امور اور بندگان خدا کیلئے ناساز گار ہی ہیں، بقول منیر نیازی، ”اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو، میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا”۔ سال کے شروع سے ہی عالمی منظر نامہ جنگوں، مفاداتی چیرہ دستیوں اور منافقانہ تماشہ بازیوں کیساتھ قدرتی آفات کے نتیجے میں سکون محال ہے قدرت کے کارخانے میں کی تصویر بنا ہوا ہے، گزشتہ کالم میں ہم نے سوات میں ہونے والے سیلابی سانحے میں ایک ہی خاندان کے 18 افراد کی ہلاکتوں اور انتظامی بے حسی کے حوالے سے نوحہ گری کی تھی، گزشتہ ہفتے امریکی ریاست ٹیکساس میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے اثرات و عوامل سے شاید ہی کوئی ذی شعور ہو جس کی روح نہ کانپ اُٹھی ہو۔ ریاست میں 38 برس بعد آنے والے اس طوفان بلا خیز سے جو انسانی، املاکی و بلادی بربادی سامنے آئی ہے خصوصاً لوگوں کی حفاظت کیلئے بہترین وسائل و انتظامات کے باوجود جانوں کے ضیاع اور ریاست کی تباہی اس حقیقت کی نشاندہی ہے کہ قدرت کے سامنے انسان بے بس ہے، ہماری ان سطور کے تحریر کئے جانے تک 95 سے زائد ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے، امدادی سرگرمیوں اور پھنسے ہوئے لوگوں کے انخلاء کے باوجود لاتعداد افراد کا کچھ سراغ نہیں ہے، سیلاب نے جس طرح بلند ترین عمارتوں کی چھتوں تک قیامت صغریٰ کی صورت پیدا کر دی تھی اور جس طرح مدد کیلئے لوگوں کی پکار و فریدبرپا تھی ان مناظر سے کلیجہ منہ کو آتا تھا، افسوسناک ترین و دلخراش المیہ سمر کیمپ کی 27 بچیوں اور عملے کی ہلاکتوں کا ہے، ان کے لواحقین کی کیا کیفیت ہوگی اس کی وضاحت ناممکن ہی ہے کہ احساس کا اظہار الفاظ سے نہیں ہو سکتا۔
ہم نے گزشتہ سطور میں ایک جملہ تحریر کیا ہے، قدرت کے سامنے انسان بے بس ہے، مراد یہ کہ دنیا کی سب سے بڑی ریاست تمام تر وسائل کے باوجود بھی آفات ارضی و سماوی سے محفوظ نہیں رہ سکتی کیونکہ یہ رب کائنات کا فیصلہ ہے۔ یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ جب بھی قوموں، مملکتوں اور ان کے مقتدرین خود کو اقتدار اعلیٰ اور سیاہ و سفید کے دعویدار سمجھنے لگیں تو انہیں یہ احساس دلانے کیلئے کہ کائنات کا مقتدر اعلیٰ خدا ہے آفات و آزمائشوں سے دوچار کر دیا جاتا ہے یوں تو عالمی برتری اور چوہدراہٹ کے حوالے سے یو ایس کی ساری تاریخ بھری پڑی ہے ہیرو شیما، ناگا ساکی، یو ایس آر کے خاتمے سے لے کر ایران، فلسطین، و ابراہام اکارڈ سے مسلم عرب ممالک کے قبضوں اور محکوم بنانے کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ موجودہ ایڈمنسٹریشن اور صدر کا ایجنڈا ب پورے کرۂ ارض کو اپنا مطیع کرنے کے ساتھ، اسرائیل کو گریٹر بنانے کی اولین ترجیح نظر آتا ہے۔ یہی نہیں خود امریکہ میں دیگر قومیتوں و مذاہب کے حقوق و آزادی اور سہولیات سلب کرنے والے احکامات و اقدامات بھی کئے جاتے ہیں بلکہ کئے جا رہے ہیں۔ ہم گزشتہ کئی کالموں میں یہ عرض کر چکے ہیں کہ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد کے تمام فیصلے امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں کے مطابق ہوتے ہیں سوائے ایک خواہش کہ اسے نوبل ایوارڈ کا حقدار قرار دے دیا جائے، ٹرمپ کی دوسری بار صدارت کے بعد سے اب تک کے اس کے ایگزیکٹو آرڈرز، اقدامات و فیصلوں پر نظر ڈالیں تو ملکی سطح ہو یا بین الاقوامی ایشوز، امریکی ایڈمنسٹریشن کا اشتراک واضح ہے۔ پاک بھارت، روس یوکرین جنگ بندی ہو یا اسرائیل ایران جنگ بندی میں ایران پر بمباری کے بعد مذاکرات کی دعوت یا پھر غزہ میں مذاکرات سب کچھ ایسی دوغلی پالیسی جس کا مقصد ایک جانب اسرائیل کو اس کے مقاصد میں کامیاب کرانا ہے تو دوسری طرف امریکہ کے مقابل بننے والے عالمی بلاک کا راستہ روکنا ہے، اسی حوالے سے 2020ء میں اسرائیل عرب ممالک، بحرین، مراکش و یو اے ای کے درمیان ہونیوالے ابراہام اکارڈ( معاہدہ) کو وسیع کرنے کا غوغا بھی کیا گیا ہے اور چار اہم اسلامی ممالک سعودی عرب پاکستان، انڈونیشیاء و ملائیشیا کی شمولیت کے اشارے دیئے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا صدر ٹرمپ کی پاکستان کیلئے تعریفیں، آرمی و فضائی چیفس کی امریکہ آمد کے پس پردہ یہی ایشو تو نہیں ہے۔ ہمیں تو ٹرمپ کا پہلا دور صدارت بھی یاد ہے جب وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے افغان وار میں دو رُخی اور مالی بددیانتی کا اظہار کیا کرتا تھا، سوال یہ بھی ہے کہ پاکستانی قوم اسرائیل کو تسلیم کرنے کو قبول کر لے گی؟ بات اس حد تک ہی نہیں کیا اس فیصلے پر ہر دور میں ساتھ دینے والا چین مطمئن ہوگا اور پاک چین تعلقات متاثر نہیں ہونگے، ہمارے خیال میں تو ایسا کوئی بھی فیصلہ نہ پاکستان کیلئے بہتر ہو سکتا ہے اور نہ ہی خطہ کے مفاد میں ہوگا۔
ٹرمپ اور امریکی ایڈمنسٹریشن کے ایجنڈے پر ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ امریکہ اسرائیل اور برطانیہ کا اولین ایجنڈا ہی یہ ہے کہ عرب خلیج اور جنوبی و وسط ایشیائی ریاستوں کو کسی بھی طرح زیر نگیں لا کر نہ صرف اسرائیل کا ہدف پورا کیا جائے۔ بلکہ چین اور روس سمیت خطے کے ممالک روڈ بیلٹ سمیت دیگر اقدامات سے جو بلاک استوار کر رہے ہیں اسے بھی ناکامی سے دوچار کیا جائے،سوموار کو ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان ہونے والی ملاقات میں اسرائیل و حماس کی60دن کی جنگ بندی بلکہ واقف فلسطینی عوام کو غزہ سے پڑوسی اسلامی ممالک منتقل کرنے کے ڈرامہ اور اسرائیل کی جانب سے ٹرمپ کو نوبل ایوارڈ کی نامزدگی کے فوری بعد ایران پر اسرائیلی حملہ صہیونی طاقت اور اس کے سہولت کاروں کا دوغلا پن ہی تو ہے۔شکر ہے کہ سعودی عرب نے تجاوزات کی شدید مخالفت کی ہے اور اسرائیل امریکہ سازش کی مذمت کی ہے۔ ٹرمپ اور یو ایس ایڈمنسٹریشن کی دو رخی پالیسی تو مقامی کمیونٹیز اور مہاجرین کے حوالے سے میڈی کیڈ، امیگریشن و ایشوز کے ناطے بھی سامنے آئی ہے اور جس طرح کی شرائط، کٹوتیاں اور سختیاں بگ بیوٹی بل کے توسط سے سامنے آئی ہیں کیا وہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے جمہوری، انسانی حقوق و آزادی کے خوبصورت امیج کو مسخ کرنے کا سبب نہیں بنیں گی۔ ہمارا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال امریکی سیاست میں شدید تبدیلی کی جانب گامزن ہے کہ یہی اس ملک کا روشن تشخص ہے۔ موجودہ دو رخی پالیسیاں امریکی مفاد کے بالکل خلاف ہیں۔
٭٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here