پاکستانی قائدین کے قاتل کون؟

0
254

Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA

پاکستان کی پہلی قیادت بانی پاکستان اور پہلے گورنر جنرل حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے مسلمان ہند کیلئے ایک الگ ملک بنایا تاکہ مسلمان اپنی پسماندگی کی زندگی سے باہر نکل کر عہد جدیدیت کی ترقی میں داخل ہو پائیں جن کی اپنی مالی ریاست، نظام، تعلیم، صحت، معیشت اور آزاد خود مختار ادارے ہوں جب انہیں حالت شدت بیماری میں زیارت کوئٹہ سے ماڑی پور کراچی لایا گیا تو راستے میں ان کی گاڑی پنکچر ہو گئی جن کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کسی ایمبولینس کی منتظر رہیں مگر قائداعظم ان کی گود میں بنا علاج، مدد اور ایمبولینس وفات پا گئے حالانکہ خالق پاکستان اور گورنر جنرل کی گاڑی کے آگے پیچھے میڈیکل ٹیموں اور ایمبولینس کی لائنیں لگی ہونی چاہیے تھیں لیکن تاریخ نویسوں کی شہادتوں کے مطابق گاڑی کے پاس کوئی وزیر، مشیر، آرمی چیف اور کوئی اہلکار بھی موجود نہ تھا جبکہ جنرل ایوب خان لندن سے اپنے پیچسوں کا علاج کروا رہا تھا جن کو ڈر تھا کہ اگر سازش پکڑی گئی تو ان کا کیا ہوگا لہٰذا انہیں لندن میں ٹٹیاں لگ چکی تھیں جس کے بعد ملک پر بھیڑیوں نے قبضہ کر لیا جس کا حشر ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل اور وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان نے جب ملک کی آزادانہ خارجہ پالیسی کا عندیہ دیا، روس کےساتھ تعلقات استوار کرنے کا سوچا، ملک میں لینڈ اصلاحات کا ذکر کیا کہ ہر کاشتکار خاندان کو 12 ایکڑ زرعی زمین دی جائےگی جس طرح بھارت میں نہرو اصلاحات ہوئی تھیں تو انہیں جلسہ عام کمپنی باغ (لیاقت باغ) میں قتل کر دیا گیا جن کے قتل کا آج تک سراغ نہ لگ پایا ہے جس کے بعد ملک پر سامراجی طاقتوں، گورنر جنرل اور فوجی جنرل قابض ہو گئے جن سے چھٹکارہ پانا مشکل ہو چکا ہے۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ مادر ملت فاطمہ جناح جنہوں نے ملک پر قابض اور غاصب جنرل ایوب خان کے مقابلے کا اعلان کیا جن کو پاکستان کی پہلے دھاندلی شدہ انتخابات میں ہرایا گیا جن کو مشرقی پاکستان کے اکثریتی صوبے سے اور کراچی سے اکثریتی ووٹ ملے تو جنرل ایوب خان نے راتوں رات تمام بی ڈی ممبران کو اغواءکر لیا جس کے بعد محترمہ کو ہرا دیا گیا جبکہ محترمہ کےساتھ ملک کی تمام جمہوری اور ترقی پسند قوتیں کھڑی تھیں جس میں شیخ مجیب، ولی خان، نواب زادہ نصر اللہ خان، غوث بخش بزنجو اور دوسری قیادتیں شامل تھیں آخر کار جنرل ایوب خان نے فاطمہ جناح کو غدار اور بھارتی ایجنٹ ہونے کا بھی الزام لگایا اور مادر ملت کو گھر میں قید کر دیا گیا ،ان کی آمد و رفت پر نگران بٹھا دیئے گئے کہ اچانک ایک دن محترمہ فاطمہ جناح کی وفات کا سرکاری اعلان ہوا جس میں خاندان کے افراد کو مسخ شدہ چہرہ دیکھنے کی اجازت نہ دی گئی اس سازشی قتل کو بھی آج تک چھپایا گیا جو جنرل ایوب خان کے عہد میں ہوا، پاکستان کے ٹوٹنے کے بعد ٹوٹے پھوٹے ملک کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے 90 ہزار پاکستانی جنگی قیدیوں کو بنا جنگی جرائمز مقدمات بھارت سے واپس لایا ملک کے دفاع کیلئے نیو کلیئر پروگرام کی بنیاد رکھی۔ مسلح دنیا کے اتحاد کیلئے اسلامک سمٹ منعقد کی گئی پاکستان کو برطانوی مالکوں کی کامن ویلتھ سے باہر نکالا، دیرینہ قادیانی مسئلہ حل کیا، مزدوروں کو حقوق دیئے، بے گھر ہاریوں اور کسانوں کو گھر فراہم کئے، جن کا آخر کار جنرل ضیاءالحق نے تختہ اُلٹ کر ملک پر قبضہ کر لیا۔ بھٹو پر من گھڑت قصے اور کہانیوں پر مشتمل مقدمہ¿ قتل قائم کیا گیا جس پر ملک کے ضمیر فروش اور بے حس ججوں نے انہیں پھانسی پر لٹکا دیا جو بعد میں جسٹس نسیم حسن کی طرح گلی کُوچوں میں روتے پیٹتے نظر آئے کہ ہم سے فوجی جنرلوں نے دباﺅ میں لا کر پھانسی دلوائی ہے جس کے بھٹو حقدار نہ تھے اس طرح قائد عوام کو سامراجی طاقتوں کے اشاروں پر مروا دیا گیا۔ پاکستان کی چوتھی قیادت خاندان شہداءسے تعلق رکھنے والی دنیا کی واحد مسلم منتخب وزیراعظم مادر عوام بینظیر بھٹو جنہوں نے پاکستان کا دفاع مضبوط کرنے کیلئے نارتھ کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی۔ مغربی طاقتیں سخت ناراض ہوئیں، پاکستان میں جمہوریت کیلئے میثاق جمہوریت پر ملکی جمہوری قوتوں کےساتھ معاہدہ کیا جن کے جلا وطنی پر 35 لاکھ لوگوں نے استقبال کیا جنہوں نے امریکی معاہدے کے جنرل مشرف کےساتھ مل کر حکومت بناﺅ کا فارمولا ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ انہیں پاکستان کی مقتدر طاقتوں نے دن دیہاڑے پاکستان کی سیاستدانوں کی مقتل گاہ لیاقت باغ پر قتل کر دیا گیا جو سندھ کا پانچواں بڑا قتل تھا جن کی جائے مقام قتل کو فوری جنرل مشرف کے حکم پر دھو دیا گیا ۔ڈیوٹی پر نامزد افسران کے تبادلے کر دیئے گئے، لاش کا پوسٹمارٹم نہ ہونے دیا گیا جس کی سرکار ذمہ دار ہوتی ہے ،ان کے قتل کا بھی آج تک سراغ نہ لگایا گیا حالانکہ ایک تھانیدار قاتلوں کو گرفتار کر سکتا تھا چونکہ محترمہ کے قتل میں ملکی اور غیر ملکی طاقتیں ملوث ہیں لہٰذا قتل کا اتا پتہ نہ چل سکا۔
پاکستان کے پانچویں قیادت قائد اعظم کا ساتھی بلوچستان کو پاکستان میں شامل کرنے والا اکبر بگٹی جنہوں نے فوجی کپتان کے ہاتھوں ایک معصوم ڈاکٹر شازیہ کے جبری ریپ پر احتجاج کیا تو انہیں جنرل مشرف نے پہاڑ کے نیچے دھماکوں سے دفن کر دیا جن کی لاش کا آج تک اتا پتہ نہیں چل سکا۔ اکبر بگٹی کے بعد قائداعظم کے دوسرے ساتھی اور مدد گار بلوچستان مسلم لیگ کے سربراہ قاضی عیسیٰ کے صاحبزادے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی جان کا خطرہ لاحق ہو چکا ہے جنہوں نے اپنے فیصلوں میں جنرلوں کی گھناﺅنی سازشوں کو عیاں کیا ہے جن کو روزانہ جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ بہر حال پاکستان کے قائدین کے قتل کا آج تک سراغ نہیں لگ پایا نا ہی کوئی آزاد اور خود مختار حکومت آنے دی گئی ہے جو کم از کم مجوزہ رہنما قائدین کے قتل کی تحقیقات کر پاتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان پہلے ٹوٹ چکا ہے اور اب مزید توڑنے کی سازشیں تیار کی جا رہی ہیں، ظاہر ہے جب قائدین کے نقش قدم اور قربانیوں پر نہیں چلا جائےگا عوام کے حقوق پامال ہونگے ملک میں انتخابات میں لوٹ مار کی جائے گی ،صوبوں کی خود مختاری کو سلب کیا جائےگا۔ عوام کی منتخب حکومتوں کےخلاف سازشیں تیار کی جائیں گی جس سے پاکستان میں انتشار اور خلفشار کا دور دورہ ہوگا تو ایسے میں ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان میں ایک آزاد اور خود مختار اعلیٰ درجے کا کمیشن بنایا جائے کہ جو ملک دشمنوں کو طاقتوں کے بارے میں تحقیقات کر پائے تاکہ ملک بچایا جائے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here