فیس بک اور ٹویٹر سمیت متعدد سوشل میڈیا اپیلی کیشنز کے بانیوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہ کیا بنانے جارہے ہیں۔ شاید بالکل ویسے ہی جیسے ایٹم بم کے موجد پروفیسر جے رابرٹ کو معلوم نہیں تھا کہ ان کی تھیوری حقیقت کا لباس زیب تن کرنے کے بعد ان کی سوچ سے بھی خطرناک نکلے گی۔ شوشل میڈیا اپیلی کیشنز بنانے والوں کی سوچ سے اختلاف تو بالکل بھی نہیں کیا جاسکتا، جنہوں نے مختلف کمیونٹیز اور مختلف خطے کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر بے مثال کام کیا۔
لیکن ماننا پڑے گا کہ سوشل میڈیا کے بانیوں کو بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کی ایجادات ان کی سوچ سے بھی زیادہ خطرناک حد تک استعمال ہوں گی۔ انفرادی طور پر سوشل میڈیا پر برپا کیے جانے والے طوفانوں پر تو بات کریں گے لیکن اس سے قبل آپ اندازہ کیجئے کہ باضابطہ طور پر کئی ممالک بھی سوشل میڈیا کو منفی انداز میں استعمال کرنے میں پیش پیش ہیں جس کی ایک مثال چند ہفتے قبل ہی سامنے آئی، یورپی یونین کے ایک تحقیقاتی ادارے نے بھارتی سوشل میڈیا گروپس کا انکشاف کیا جو نہ صرف اقوام عالم میں بلکہ یورپی یونین کو بھی غلط خبروں کے ذریعے گمراہ کرنے میں مصروف تھے کیونکہ اس گمراہ کن پروپیگنڈے سے سب سے زیادہ متاثر پاکستان کو کیا جا رہا تھا اس لیے پاکستان نے نہ صرف اس پر احتجاج کیا بلکہ ان کے خلاف باقاعدہ عالمی فورمز سے ایکشن کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
دوسرے ممالک میں سوشل میڈیا کے ذریعے کیا گل کھلائے جا رہے ہیں ہمیں اس سے ابھی سروکار نہیں، مجھے تو فکر ہے اپنے ملک پاکستان کی جہاں سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کے رویوں اور اور نظریات کو اس قدر متاثر کیا گیا ہے کہ اب تقریبا آپ کو ہر دوسرا آدمی کنفیوژن کا شکار ہی نظر آئے گا۔
سیاسی جماعتوں سے لے کر مختلف اداروں تک سبھی آپ کو سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار نظر آئیں گے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی پرموشن کی حد تک یہ دنگل رہتا تو کوئی اتنا نقصان دہ نہیں تھا، مگر مخالفین پر کیچڑ اچھالنے کی روایت زور پکڑنے لگیں تو سوشل میڈیا شغل میڈیا کے روپ میں سامنے آنے لگا۔ حقائق کے نام پر ایسے ایسے جھوٹ بنا کر سوشل میڈیا پر لوگوں کو بتائےجارہے ہیں کہ لفظ شرمندگی بھی شرمندہ شرمندہ نظر آتی ہے۔ چلے بات اپنے سیاسی مخالفین تک رہتی تو کسی نہ کسی سطح پر اس کا مداوا کرہی لیا جاتا مگر شغل میڈیا کی اس دوڑ میں قومی مفادات کو بھی نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کیا گیا۔ مختلف موضوعات پرمغز تبصروں کے نام سے لوگوں میں پھیلائی جانے والی گمراہی آخرکب تھمے گی۔سوشل میڈیا کو شغل میڈیا بنانے والوں کو معلوم ہے کہ وہ جس طرح گمراہ کن معلومات لوگوں میں پھیلا رہے ہیں معاشرے پر اس کے کیا نفسیاتی اثرات پر رہے ہیں۔ اس کا احساس انہیں شاید نہیں اس لئے کہ انہیں صرف لائک اور ویوز چاہیں۔
سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنا آزادی اظہار رائے پر وار کہلائے گا، مگر سوشل میڈیا کی آزادی کا بے جا اور غلط استعمال کرتے ہوئے جو لوگ غلط معلومات کے ذریعے ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے گامزن ہیں ان کو کس طرح سمجھایا جائے کہ کسی ملک پر ایٹم بم گرا دیا جائے تو وہ ایک روز جاپان کی طرح اپنے پاو¿ں پر دوبارہ کھڑا ہو جاتا ہے مگر کسی قوم کا ذہن تباہ کردیا جائے تو وہ اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کو صرف خوابوں اور خیالوں میں ہی دیکھ سکتی ہے۔
٭٭٭