ماجد جرال
“قانونی برادری سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے جانب سے وزیر اعظم کے خلاف ممبران اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے سے متعلق مقدمے میں آنے والے بے مثال فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتی ہے”پاکستان بار کونسل کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں یہ لائنیں دراصل پاکستان میں عدالتی نظام کے آزادانہ اور منصفانہ ہونے کے دعوے پر ماضی میں بھی کئی بار تھپڑ رسید کر چکی ہے۔ ہم کیوں عمران خان کے دور میں ہی عدالتی فیصلوں پر تشویش کا اظہار کریں، کیا ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ عدالتی رویہ انصاف پر مبنی رہا ہے۔ خصوصا سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ عدالتی مخالفت کا سامنا تھا، شاید آپ کو میرا یہ کہنا حیران کر رہا ہوں مگر حقیقت یہی تھی۔مجھے یاد نہیں کا مہینہ کونسا تھا لیکن 2012 میں جب میں سپریم کورٹ سے نوائے وقت کے ٹی وی چینل وقت ٹی وی کے لیے رپورٹنگ کیا کرتا تھا تو یہ وہ زمانہ تھا جب صرف سپریم کورٹ کا ڈنڈا چلتا تھا،سپریم کورٹ کی راہداریوں میں “بوٹ” بھی بڑے احترام سے چلتے ہوئے آتے تھے۔ اسی دور میں ایک مقدمہ بڑا مشہور ہوا جیسے سب “ایفی ڈرین کیس” کے نام سے جانتے ہیں۔یہ مقدمہ براہ راست تب کی پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کے وزیر صحت مخدوم شہاب الدین، موسیٰ گیلانی یا کسی اور بڑی شخصیت کے نام سے سپریم کورٹ کی کاز لسٹ(اس روز سنے جانے والے مقدمات کی فہرست) میں موجود نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس مقدمے کا عنوان محمد توقیر برخلاف ریاست پاکستان تھا۔لہٰذا اس مقدمے پر رپورٹرز کی نظر نہ پڑنا فطری تھا کیونکہ ایسے سینکڑوں مقدمات روزانہ سپریم کورٹ کی کاز لسٹ میں موجود ہوتے ہیں۔ یہ مقدمہ دراصل اے این ایف کی ایک اپیل تھی مگر جس انداز سے اس کی ابتدا ہوئی اس سے محسوس ہوا کہ سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ذہن بنا چکے تھے کہ اس اپیل کو شروع ہونے سے پہلے ہی میڈیا میں خوب اُچھالنا ہے۔ لہٰذا اس کے لئے سپریم کورٹ میں فرشتوں کو احکامات جاری کیے گئے کہ وہ چند رپورٹروں کو اس مقدمے کا بیک گرونڈ فراہم کریں۔دوپہر ساڑھے تین بجے کے قریب جب ہم تمام رپوٹرز سپریم کورٹ میں اہم مقدمات کی سماعت مکمل ہونے کے بعد اپنے اپنے دفاتر روانگی کے لئے تیار ہو رہے تھے تو اچانک ہمارے ایک دوست جن کا تعلق حکومتی ایجنسی سے تھا، میرے پاس آئے اور کہا کہ ابھی دفتر مت جانا، وزیراعظم کے بیٹے موسیٰ گیلانی کے خلاف بڑا اہم کیس چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی عدالت نمبر ایک میں سماعت کے لیے لگنے والا ہے۔ میں نے دیکھا کہ تقریبا سبھی رپورٹرز واپس اپنے دفاتر میں جارہے ہیں مگر بہرحال میں پھر بھی رک گیا کہ چلو آج پھر یہ مقدمہ سن کرہی جاتے ہیں، دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ رپورٹرز کے باہمی خبری مقابلے کے باعث بھی میں کسی کو نہ بتا سکا کہ رک جاو¿ کوئی اہم مقدمہ ابھی سماعت کے لئے رہتا ہے۔ تقریبا ساڑھے چار بجے کے قریب میں سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں پہنچا تو مجھ سے پہلے صرف جیو نیوز کے نمائندہ خصوصی قیوم صدیقی بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے، وہ میری طرف دیکھ کر ہلکا سا مسکرائے، میرے بعد صرف ایک یا دو رپورٹرز کمرہ عدالت میں داخل ہوئے جن کے نام بھول گیا ہوں، تاہم مقدمے کے ٹکرز ٹی وی چلنے کے بعد کئی رپورٹرز بھاگم بھاگ واپس سپریم کورٹ پہنچے۔
بہرحال ماضی میں یہ مقدمہ بھی موجود ہے جب انصاف کا جنازہ نکلنا شروع ہوا۔ اینٹی نارکوٹکس فورس تفتیشی ٹیم کے سربراہ برگیڈیئر فہیم عدالت کے روبرو پیش ہوئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم یہی بتایا کہ وہ اپیل واپس لینا چاہتے ہیں، جس کی وجوہات شاید انہوں نے یہی بتائی تھیں کہ مقدمے میں جان نہیں ہے، اس دوران برگیڈیئر فہیم نے ایک بار بھی مخدوم شہاب الدین، موسیٰ گیلانی سمیت کسی حکومتی عہدیدار کا ذکر نہیں کیا اور وہ اپنا موقف بھی انگریزی میں دے رہے تھے۔
مختصر یہ کہ بریگیڈیئر فہیم نے جو بات انگریزی میں کرتے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری وہی بات دوبارہ اردو میں دہراتے، جس کا بظاہر مقصد تو یہی سمجھ آتا ہے کہ اس کیس کے ذریعے پیپلز پارٹی حکومت کا خوب میڈیا ٹرائل کیا جائے۔ جب بات ملزم محمد توقیر تک پہنچی تو افتخار محمد چوہدری نے بار بار اس بات کو دہرایا کہ یہ موسیٰ گیلانی کے پی اے ہیں۔۔۔۔
اس کیس کی میڈیا پروجیکشن کے لیے مبینہ طور پر ٹی وی اینکرز میں رقوم کی بندر بانٹ بھی ہوئی، خصوصا ایک مشہور ٹی وی اینکر کے بارے میں یہ الزام بھی لگا کہ انہوں نے اس کیس پر صرف دو پروگرام کرنے کے لئے ایک کروڑ روپے وصول کیے تھے۔
آج آٹھ سالوں بعد آپ ایفی ڈرین کیس کو دوبارہ نکال کر دیکھیں تو ہم اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے تاحال اس مقدمے میں صرف مسلم لیگ نون کے حنیف عباسی کو ہی سزا ہوئی اور ایک بار پھر انصاف کا جنازہ نکالتے ہوئے یہ سزا اس وقت ہوئی جب وہ انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔
لہٰذا پاکستان بار کونسل سے گزارش ہے کہ وہ اپنی تشویش کا اظہار کرنے کی بجائے اپنے فورم کو واقعی اگر انصاف کی فراہمی کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو انہیں شاید ایک اور تحریک کی ضرورت ہے، ورنہ انصاف کے جنازے پر تشویش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، یہ تو کب کا نکل چکا ہے۔
٭٭٭