مولوی کا ڈنڈا!!!

0
145

Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA
پرائمری اسکول کے زمانے میں ایک لڑکا اکثر و بیشتر سنایا کرتا تھا کہ چار کتاباں آسمانوں اُتریاں پنجواں اُتریا ڈنڈا تو ہمیں سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ مقدس کتابوں کے علاوہ ڈنڈا کیا تھا بعد میں پتہ چلا کہ ڈنڈا حضرت موسیٰؑ کو دیا گیا تھا جس کو عصا موسیٰؑ کہا جاتا تھا جسنے فرعونوں کا قلعہ قمع کر دیا تھا۔ اس ڈنڈے کی آج بھی ضرورت ہے جو پاکستان پر مسلط فرعونیت کو ختم کرے، تاہم پاکستان میں بھی ایک ڈنڈے کا چرچا ہے جس کے استعمال کیلئے مولانا فضل الرحمن نے حکم دیا ہے جن کے پاس اسی ہزار ڈنڈا بردار رضا کار ہیں جو بڑے بڑے سیاسی اور مذہبی انتظامات کرتے ہیں یہ وہی ڈنڈا ہے جس نے ملتان میں بندوق والوں کو مار بھگایا ہے جس کے بعد اب اپوزیشن کو حوصلہ افزاءہے کہ وہ نہتے پن میں ڈنڈے کا استعمال کر سکتی ہے تاکہ وگڑیاں تگڑیاں واسطے ڈنڈا ہی ٹھیک کر پائےگا ورنہ موجودہ حکمرانوں کا ٹولہ نہایت ظالم اور جابر کا مقابلہ کرنا مشکل ہے۔ مزید برآن مولانا فضل الرحمن ڈنڈے کے استعمال کواچھی طرح جانتے ہیں جن کے مدرسوں میں طلباءکو ڈنڈے سے ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے تاکہ طلباءاپنی دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کر پائیں اب شاید وہ موجودہ حکمرانوں کو بتا رہے ہیں کہ ہم ڈنڈے کے ذریعے اسلام آباد کے نالائق اور نا اہل حکمرانوں کو ٹھیک کرینگے جو ایک اچھا عمل ہے جس کا اپنانا اب لازمی ہو چکا ہے ورنہ موجودہ حکمرانوں نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔
بہر کیف ڈنڈا بہت مشہور ہے جس کی مثالیں استعمال ہوتی آرہی ہیں کہ فلاں شخص ایک ڈنڈے کی مار، فلاں کیلئے ڈنڈا بہت ضروری ہے، ڈنڈوں سے یہ کردیا اور ڈنڈوں سے وہ کر دیا، فلاں گروہ ڈنڈا بردار فورس رکھتا ہے۔ بابے کا ڈنڈا چلے گا وغیرہ وغیرہ۔ بہر کیف موجودہ پی ڈی ایم کی تحریک کو دیکھ کر مجھے دور ایوبی، یحییٰ ضیائی اور مشرفی یاد آجاتا ہے کہ نہتے عوام پر کس طرح قانون نافذ کرنے والے ادارے تشدد کیا کرتے تھے۔ جلسوں اور جلوسوں میں مقدس گائے کا نام لینا گناہ تصور سمجھا جاتا تھا۔ احتجاج کرنےوالوں پر بہت ہی ظالمانہ تشدد کیا جاتا تھا۔ زیادہ تر تحریکیں آمروں اور ظالموں کےخلاف کمزور پڑ جاتی تھیں مگر میں جو آج موجودہ تحریک میں جوش اور ولولہ دیکھ رہا ہوں اس کی ماضی میں مثال کم ملتی ہے کہ ایک تو ٹیکنالوجی نے پاکستانی سرکار کنٹرولڈ میڈیا کو مات دے دی ہے دوم مقدس گائے کی دُرگت لگی ہوئی ہے کہ سیاسی کارکنوں اور سوشل میڈیا پر مقدس گائے بکری بن چکی ہے جس نے گزشتہ کئی دہائیوں سے عوام پر اپنی حاکمیت کےلئے بندوق تان رکھی تھی آج اسے پتہ چل چکا ہے کہ عوام کا طوفان اس کا وحی حشر کرے گا جیسا ترکی، بنگلہ دیش، ارجنٹائن، چلی یا مشرقی یورپ میں آمروں کا ہوا ہے پی ڈی ایم کی پوری قیادت موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے باجے بجا رہی ہے۔ جس کی سازشوں کو بے نقاب کیا جا رہا ہے۔ کہ جس نے 25 جولائی 2018ءکو دھاندلی برپا کر کے انتخابات میں لوٹ مار مچا کر موجودہ حکمرانوں کو مسلط کیا گیا۔ جو نااہل اور نالائق کے ساتھ ساتھ ملک دشمن بھی گزرے ہیں جن کے دور بربریت میں پاکستان میں سیاسی، معاشی، مالی اور سماجی طور پر لنک کرپٹ ہو چکا ہے جس کا ذمہ دار جنرل باجوہ اور فیض حمید ہیں جنہوں نے پاکستان کے نظام کو درہم برہم کر دیا ہے جس سے ملکی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو چکے ہیں کہ آج پاکستان کے ارد گرد دشمنوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے ملک اندرونی اور بیرونی طور پر کمزور پڑ چکا ہے پورا مشرق وسطیٰ بھارت کی گود میں بیٹھ چکا ہے ہر طرف افراتفری کا عالم ہے، پورے ملک میں مہنگائی، بیروزگاری، بھوک ننگ کا سماں ہے لوگ خود کشیاں اور ججوں کونہروں اور دریاﺅں میں پھینک رہے ہیں یہ ہے وہ عمران مدینہ ریاست جس کا خلیفہ اپنے تین سو پچاس کنال یا پھر پینتالیس ایکڑ کے بنی گالہ محل میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہا ہے جو جب ہوش میں آتا ہے تو اپنے پیدا کردہ حالات کو اپوزیشن کے ذمہ ڈال دیتا ہے جس کی وجہ پورے ملک میں بے چینیاں پیدا ہو چکی ہیں بہرحال پی ڈی ایم کی تحریک تمام تر بندشوں رکاوٹوں، اندھیروں کے باوجود جاری ملے ہیں جس کا مظاہرہ گوجرانوالہ، کراچی، کوئٹہ، پشاور، ملتان کے بعد اب لاہور میں تیرہ دسمبر کو ہوگا یہاں سے وکلاءتحریک نے عدلیہ کو بحال کرایا تھا اب موجودہ حکمرانوں کو بھگانا ہے جس کیلئے حکمرانوں نے لاتعداد گرفتاریاں اور پکڑ دھکڑشروع کردی ہے ،ایک طرف اپوزیشن کو کاٹ کاٹ کر زخمی کیا جا رہاہے دوسری طرف سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کےخلاف مقدمات درج ہو رہے ہیں جس سے گزشتہ مارشلاﺅں کی یاد تازہ ہو رہی ہے کہ جب سیاسی کارکنوں پر کوڑے برسائے جاتے تھے، محنت کشوں اور مزدوروں پر گولیاں برسائی جاتی تھیں۔ قصہ¿ مختصر اب زمانہ بدل چکا ہے لوگوں کے پاس سوشل میڈیا کا بہت بڑا ہتھیار آچکا ہے جس کے ذریعے پوری دنیا کو آگاہ کیا جا رہا ہے جس پر پوری دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں آگہا ہیں کہ پاکستان میں کیا ہو رہاہے۔ پاکستان میں سیاستدانوں کی تیسری نسل بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، مریم نواز، ایمل ولی، اسد رحمان سامنے آچکے ہیں جو جوان اور دلیر بھی ہیں جنہوں نے اپنے خاندانوں کو شہید اور اسیر پایا ہے جن کے دلوں اور دماغوں میں بہت زیادہ غم و غصہ پایا جا رہاہے جنہوں نے اپنے آباﺅ اجداد کو موجودہ مقتدر اداروں کے ہاتھوں رسواءہوتا ہوا دیکھا ہے لہٰذا طاقتور اداروں کو اب سمجھ لینا ہوگا کہ تمہارا ظلم و ستم، قتل و غارت گری کا دور چلا گیا ہے بہتر یہی ہے کہ آپ عوام کے سامنے ہتھیار ڈال دیں ورنہ آپ کا حشر ترکی جیسے باغیوں جیسا ہوگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here