وزیر اعظم عمران خان نے سٹیزن پورٹل کی دو سالہ کارکردگی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے مسائل کی اصل وجہ کو دور کرنے کی بات کی ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ حکومت سول سرونٹس اصلاحات لا رہی ہے‘ ان اصلاحات کے ذریعے غلط رویے‘ ناقص کارکردگی‘ ضابطہ اور قانون شکنی اور غفلت کے مرتکب افسران کو ریاست اور شہریوں کے مفاد کے تابع رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ بانی پاکستان قائدِاعظم محمدعلی جناح نے 25 مارچ 1948ء کو سرکاری ملازمین سے فرمایا ”لوگوں کو یہ محسوس کرائیے کہ آپ ان کے خادم اور ملازم ہیں۔ عزت، تکریم، انصاف اور غیر جانبداری کا اعلی معیار قائم کیجیے۔“ افسوس بابائے قوم کے یہ سنہری الفاظ بھلادئے گئے اور اعلی ٰ سرکاری ملازمین عوام کی زندگیوں کے مختار کل بن بیٹھے۔وزیر اعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ افسران نوآبادیاتی طرزِ حکومت ترک کریںاور پیشہ وارانہ و باوقارطریقے سے ملک و قوم کی خدمت انجام دیں۔ وزیرِاعظم یہ ادراک رکھتے ہیں کہ گوروں کی باقیات میں سب سے خطرناک چیز افسر شاہی کی سوچ اور رویہ ہے۔ تہتر سال گزرنے کے باوجود افسران کی اکثریت سیاستدانوں کو ”لاٹ صاحب“ اور عوام و سائلین کو رعایا سمجھتی ہے۔ عالیشان رہائش گاہیں، بنگلے، طرزِ حیات اور پرانے قوانین افسران کو آج بھی ”براﺅن صاحب“ بنائے ہوئے ہیں۔ افسران کی سوچ نوآبادیاتی فکر سے اوپر نہیں اٹھ سکی۔ بیوروکریسی کا طرزِ عمل بدلنے کیلئے اس کی سوچ بدلنا ہوگی اور سوچ بدلنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کی مخصوص علامات اور نمونوں کو بدلا جائے۔اسے عوام دوست بنایا جائے۔ ای آفس یا ای گورننس وہ نظام ہے جو جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے تشکیل دیا جاتا ہے۔ اس نظام میں کاغذ کے بجائے کمپیوٹر میں موجود مخصوص سافٹ ویئر کے ذریعے سرکاری اداروں کے درمیان خط و کتابت، فائلوں کی ترسیل و وصولی اور ان کے سٹیٹس کے بارے میں معلومات عوامی رسائی میں دستیاب ہوتی ہیں۔ متعلقہ فریق نہ صرف اس سے آگاہ رہتے ہیں بلکہ نوٹیفیکیشن اور ٹائم فریم کا تعین بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے حصے کا کام کرکے بروقت آگاہ نہ کرنے والا سب کی نظروں میں آ جاتا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کرپشن سے پاک انتظامیہ چاہتی ہے۔ای گورننس کرپشن کے خلاف مہم کو نئی جہت دے سکتی ہے۔ بیس سال قبل ڈاکٹر عطاء الرحمان نے وفاقی حکومت کے تمام امور فائلوں سے نکال کر کمپیوٹر پر منتقل کرنے کے سلسلے میں ’الیکٹرونک گورنمنٹ ڈائریکٹوریٹ‘ قائم کیا تھا۔ دو عشرے گزر جانے کے باوجود ای گورننس کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔کچھ اسی طرح کے دعوے 2017 میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے ’ڈیجیٹل پاکستان پالیسی‘ میں کیے تھے۔اقتدار سنبھالنے کے بعد عمران خان نے بھی ڈیجیٹل پاکستان کا منصوبہ تیار کیا لیکن عملاً صورتحال کچھ مثالی نہیں رہی اور اس جیسے منصوبے تشکیل دینے والوں میں سے کئی افراد کو اب خود کرپشن کے مقدمات کا سامنا ہے۔ گزشتہ برس حکومت نے افسر شاہی کے لئے بعض نئے ضابطوں کی منظوری دی تھی۔ بتایا گیا تھا کہ کسی افسر کے خلاف محکمانہ احتساب کے عمل کو تیز اور موثر بنانے ، الزامات کا جواب دینے کیلئے دس سے چودہ روز اور انکوائری کمیٹی یا پھر اس کیلئے مقرر افسر کی جانب سے کارروائی مکمل کرنے کیلئے ساٹھ روز کا وقت متعین ہوگا۔ اس سب کے ساتھ مجاز حکام کی جانب سے کیس کا فیصلہ صرف30روز میں کیا جائیگا۔ اس پورے عمل میں انصاف کے تقاضوں کو یقینی بنانے کیلئے مدعا علیہ کو شخصی سماعت کا موقع بھی فراہم کیا جائیگا۔ کسی بھی ریاست میں حکومت کے اقدامات اور اصلاحات اسی صورت عوام کیلئے سہولت کا ذریعہ بنتے ہیں جب ان پر عملدرآمد کی ذمہ دار سرکاری مشینری پوری طرح فعال ہو اور دفاتر میں چیک اینڈ بیلنس کا موثر نظام کام کر رہا ہو۔ سرکاری نظام ہرقسم کے دباو اور بے جا مداخلت سے آزاد ہو، خلاف میرٹ تقرریوں سے گریز ہو اور خود سرکاری مشینری کا اہم حصہ سول افسروں اور ماتحت عملے کو درپیش مشکلات کا احساس بھی ہو تاکہ وہ پورے اطمینان اور تحفظ کے احساس کے ساتھ کام کرسکیں اس سب کیلئے بیورو کریسی کے پورے نظام اور آپریشن میں اصلاحات سے متعلق طویل عرصے سے اطلاعات ملتی رہی ہیں۔ پاکستان کی بیورو کریسی کا مزاج حاکمانہ ہے۔ اسی مزاج کو پیش نظر رکھ کر ان کی تربیت کی جاتی ہیایگورننس ‘ جوابدہی میں آسانی اور عوام دوست پالیسیاں اپنا کر ایسے افسران کی حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے جو اپنا کام دیانت داری سے انجام دینا چاہتے ہیں۔پاکستان میں افسر شاہی نے خود کو کبھی عوام کی خدمت گار نہیں سمجھا۔اعلیٰ سرکاری ملازمین نے ہمیشہ خود کو عوام کی بجائے حکمران طبقات کے ساتھ جوڑا۔ ہر حکومت میں ایسے بیورو کریٹ نمایاں حیثیت پاتے ہیں جو حکمرانوں کے مخصوص مفادات کا تحفظ کرنے کے عوض اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لئے مراعات پاتے ہیں۔ وزیر اعظم اس امر کا ادراک رکھتے ہیں کہ شہریوں کی اکثر شکایات افسر شاہی اور دفتری نظام کی وجہ سے دور نہیں ہو پاتیں‘ افسر شاہی کا مزاج ہی معاملات کو التوا میں رکھنا ہے‘ اس کا ایک نمونہ ڈاکٹر عشرت حسین کی اصلاحات ہیں جو ڈھائی برس گزرنے کے باوجود سامنے نہیں آ سکیں۔ وزیر اعظم کو کسی ایک پلڑے میں وزن رکھنے کی بجائے پہلے اپنی ٹیم کو ہوم ورک جلد مکمل کرنے کی تاکید کرنی چاہیے تاکہ اصلاحات کا عمل نئے مسائل کا سبب نہ بن سکے۔ غلطی پر تبادلے کی پالیسی مفید ثابت نہیں ہو سکی‘ملازمت سے برطرفی ایک مناسب سزا ہے تاہم یہ عمل شفافیت یقینی بنانے کا تقاضا کرتا ہے۔
٭٭٭