میرا اور تیرا کراچی ڈوب گیا!!!

0
317

Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA

بانی¿ پاکستان قائداعظم اور مادر ملت فاطمہ جناح کا جائے پیدائش اور جائے آرام گاہ پاکستان کا پہلا دارالخلافہ، منی پاکستان، برصغیر اور ایرانیوں اور تورانیوں کے لاوارث عوام کا مسکن، پاکستان کی انڈسٹری، معاشیات، مالیات اور تعلیمات کا گڑھ، مرکز، صوبوں اور مقامی حکومتوں کو میرے زیادہ فنڈز فراہم کرنے والا، بندرگاہوں، بحری جہازوں، ایئرپورٹس، نیوی اڈوں کی آماجگاہ، ملک بھر سے غریبوں، بے کسوں، لاچاروں، مزدوروں، محنت کشوں کی پناہ گاہ شہر میرا تیرا جنگ میں کراچی ڈوب گیا، جس پر اسلام آباد، پنڈی وال، آبائی اور مقامی حکمران آپس میں اختیارات پر لڑتے رہے ہیں جس کی گلی کوچے، دریاﺅں، ندیوں اور جھیلوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں، مکانوں کی چھتوں سے پانی ٹپک رہا ہے، شہر کے ندی نالے اُبل رہے ہیں، لوگ چھتوں سے پانی میں چھلانگےں لگا رہے ہیں، سڑکوں پر بڑے بڑے ٹرک اور ٹرالر تیر رہے ہیں۔ بجلی کے کرنٹ سے لوگ مر رہے ہیں، پورا شہر نہروں اور دریاﺅں میں تبدیل ہو کر سمندر بن چکا ہے جس پر بھی مرکزی، صوبائی اور مقامی حکمران میرا تیرا لڑ رہے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ اگر کراچی ڈوبا ہے تو پورا پاکستان ڈوب چکا ہے، کئی کاروبار بند پڑے ہیں، کارخانے اور فیکٹریاں بند پڑی ہیں حتیٰ کہ شہر کی پوری زندگی مفلوج ہو چکی ہے، جس پر سیاست چمکانے کا شور و غل مچا ہوا ہے اور جو ایکد وسرے کو الزامات دے رہے ہیں بعض حضرات شہر کے ندی نالوں کی صفائی کا سہرا فوج پر باندھنے پر مصروف ہیں، جو نہیں جانتے ہیں کہ پوری دنیا میں طوفانوں، زلزلوں، کانوں میں فوج ملک کے باشندوں کی مدد کرتی ہے جن کو خصوصی تربیت دی جاتی ہے کہ وہ ایسے حالات میں کس طرح اپنے آپ اور دوسروں کو بچائیں گے، پاکستانی فوج بھی اسی ملک کی فوج ہے جو مرکزی اور صوبائی حکومت کے احکاامت کی پابند کہلاتی ہے جس کو دونوں حوکمتیں ایسے بُرے حالات میں طلب کر سکتی ہیں۔ اگر پولیس اور دوسرے ادارے شہریوں کی حفاظت کرتے نظر آتے ہیں تو فوج کیوں نہ کرے گی لہٰذا اس قسم کے سوالات اُٹھانا آئین پاکستان سے بغاوت اور خالف ورزی ہے حالانکہ کراچی میں نیم فوجی ادارہ رینرجز گزشتہ 35 برسوں سے موجود ہے جس نے طلباءکے ہوسٹلوں، بری بری سرکاری قیام گاہوں، مسافر خانوں، درسگاہوں اور آرام گاہوں پر قبضہ جما رکھا ہے جس کو اہل کراچی پال رہے ہیں وہا گر ایسے بُرے حالات میں شہر کو بچانے میں مصروف ہونگے تو کوئی بڑی بات نہیں ہے تاہم کراچی،سندھ کا سب سے بڑا شہر ہے جو تقسیم ہند سے پہلے ایک عام شہر تھا جہاں مچھیروں کی بستیاں آباد تھیں یا پھر کاروباری لوگ رہتے تھے جن کی کشتیاں چلتی تھی یا بحری جہازوں سے کاروبار کرتے تھے جب ہندوستان تقسیم ہوا تو کراچی میں سب سے زیادہ لوگ برصغیر کے مختلف علاقوں سے آکر آباد ہوئے جس میں پاکستان کے بھی کونے کونے سے لوگ آکر پناہ گزین ہوئے جن میں اکثریتی آبادی مزدوروں، محنت کشوں اور متوسط طبقے کی تھی۔ جنہوں نے دن رات محنت مشقت کر کے شہر کو کراچی شہر بنایا ہے لہٰذا قائداعظم محمد علی جناح نے کراچی کو دارالخلافہ قرار دیا جس کے اہلیان سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور جمہوریت پسند شہری تھے جو پورے ملک بشمول مشرقی پاکستان کی حمایت میں بھی احتجاج کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے حکمرانوں کے ایوان، دربان اور بلوان ہل جاتے تھے جس کے خوف سے فوجی جنرلوں نے کراچی دارالخلافہ بند کرکے پنجاب اور سرحد (پختون خواہ کی سرحد پر پہاڑی کے اوپر اپنا نیا دارالخلافہ بنا لیا جو بانی¿ پاکستان کے احکامات کی نافرمانی اور انکاری کے مرتکب تھے جس کے بعد فوجی جنرلوں کی بغاوتوں کا سلسلہ چل نکلا جنہوں نے پانچ مرتبہ سول حکومتوں پر قبضے، پانچ مرتبہ آئین پاکستان پامال و منسوخ اور معطل کیا۔ چار دہائیوں تک براہ راست حکمرانی اور باقی ماندہ وقتوں میں سازشوں میں گزارہ ہے کہ آج وہ شہر جو پورے پاکستان کو پالتا ہے وہ ڈوب چکا ہے جس کے گلی کُوچوں میں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، ندی نالوں پر مکانات بنا دیئے گئے ہیں، پارکوں پر عمارتیں کھڑی ہیں جس کا ذمہ دار جنرل مشرف اور مقامی حکومتیں ہیں جس کے دور حکمرانی میں شہر کراچی ڈوبنے کا جواز بنا ہے بہرکیف کراچی کی آبادی اندازوں کے مطابق دو ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے یہاں مردم شماری کا فقدان ہے، شہری آبادی کم اور علاقوں کو توڑ مروڑ کر اپنے اپنے حلقہ انتخاب بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے پورا شہر نمائندگی سے محروم ہے۔
جس کا سب سے بڑے مجرم جنرل ضیاءالھق، اورج نرل پرویز مشرف ہیں جنہوں نے قصداً اور ارادتاً منصوبہ بندی کے تحت کراچی کو لسانی، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا، لسانی اور نسلی گروہوں، گروپوں اور پارٹیوں کو پالا ہے جس کے اثرات آج سامنے آچکے ہیں کہ شہر کراچی لاوارث نظر آرہا ہے۔ حالانکہ شہر میں لاکھوں کی تعداد میں مختلف گروہ اور گروپس آباد ہیں جن میں کسی بھی تعداد زیادہ یا کم نہیں ہے مگر شہر میرا تیرا کی جنگ میں بٹا ہوا ہے جس سے اہلیان کراچی بدحالی، بد امنی اور بد سلوکی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ بہر حال حکمرانوں کو ہر طرح کے کارڈ کارڈ کھیلنے کی بجائے لوگوں کی زندگیوں کا خیال رکھنا چاہیے کراچی کے تمام ندی نالے، گلی کُوچے اور سڑکیں صاف کرنا ہونگے، صاف پانی اور بجلی کی فراہمی کے انتظامات کرنا ہونگے۔ جگہ جگہ سوسائٹیوں، مرکزوں، پلازوں، کوٹھیوں، بنگلوں کی بجائے اونچی اونچی عمارتیں تعمیر کرنا ہونگی۔ تاکہ شہر کو میلوں میل میں بسانے کی بجائے نیویارک کی طرح اونچی عمارتوں میں بسایا جائے جس سے اہلیان شہر کو پارکوں، اسکولوں، ہسپتالوں اور دفتروں کیلئے جگہ ملے گی۔ لہٰذا تمام ڈیفنس سوسائٹیوں، عسکری اسکیموں کو بھی ختم کرنا ہوگا۔ جو میلوں میں زمین پر بنگلے اور کوٹھیاں بنا رہے ہیں جس سے شہر کے پاس آباد کاری کیلئے زمین کم پڑ چکی ہے۔ کراچی میں فوری سرمایہ کاری اور انڈسٹری کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ بیرون ملک منتقل سرمایہ واپس آجائے۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہوا تو کراچی کی تباہی پورے ملک کی بربادی ہوگی لہٰذا بہتر یہی ہے کہ میرا تیرا کی جنگ کو بند کر کے قائد ہشر کو بچایا اور بسایا جائے جس میں سب کی بہتری ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here