مجوزہ نیب رولز!!!

0
132

سپریم کورٹ میں چیئر مین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی جانب سے مجو زہ نیب رو لز جمع کرائے گئے ہیں،عدالت میں جمع کرا ئی جا نے والی رپورٹ میں نیب نے مجو زہ رو لز کی کاپی منسلک کی ہے جسکومنظوری کیلئے صدر مملکت کو بھی پیش کیا گیا ہے۔نیب نے سپریم کورٹ کے حکم پر یہ رولز تیار کیے ، نیب نے احتساب آرڈیننس 1999کے سیکشن 34کے تحت مجو زہ رولز میں کہا گیا ہے کہ چیئر مین نیب سیکشن34اے و دیگر متعلقہ سیکشنز کے مطابق قومی احتساب بیورو میں فرائض کی ادائیگی کیلئے کسی بھی افسر کے حق میں اپنے اختیارات سے دستبردار ہوسکتا ہے ،چیئر مین نیب سیکشن37 کے تحت نیب کے ڈھا نچہ میں تبدیلی کر سکتے ہیں، چیئر مین نیب کے پاس یہ بھی اختیارات ہوں گے کہ وہ انکوائری کو ایک ریجن سے دوسرے ریجن منتقل کرسکتے ہیں۔نیب کا ایک ایگزیکٹو بورڈ ہوگا جس میں چیئر مین،ڈپٹی چیئر مین،پراسیکیوٹر جنرل شا مل ہو ں گے جسکے پاس انکوائری،انوسٹی گیشن کو مارک کر نے یا بند کرنے کے اختیارات ہوں گے جبکہ دیگر اختیارات میں ریفرنسز کی منظوری ،پلی با رگین، رضاکارانہ رقوم کی واپسی کے فیصلے شامل ہیں۔شکایات سے متعلق کہا گیا کہ نیب سیکشن 18بی کے تحت کسی بھی مشتبہ جرم کے بارے میں ایکشن لے سکتا ہے ، شکایات وصول ہو نے کے ایک ماہ کے اندر ریجنل بورڈ کے سامنے رکھی جائیں گی اورتصدیق کے بعد ان کو انکوائری میں تبدیل کر دیا جائے گا۔انکوائری میں حکام تمام تر ممکنہ احکامات اور کسی بھی ملزم کی گرفتاری کے احکامات بھی جاری کرسکتے ہیں، انکوائری کو چار ماہ میں مکمل کیا جا ئے گا جبکہ غیر معمولی حالات میں ایک ماہ کی تو سیع کر سکتے ہیں اور چیئر مین نیب وجوہات بیان کرکے تین ماہ کا اضافہ کر سکتے ہیں۔تفتیشی افسر انکوائری کو انوسٹی گیشن میں تبدیل کر نے کیلئے تمام ریکارڈ کو مرتب کریگا، تفتیشی افسر انوسٹی گیشن کو چار ماہ میں مکمل کر ینگے جبکہ حکام اس متعینہ مدت میں اضافہ بھی کرسکتے ہیں،اگر کیس میں قابل گرفت مواد موجود ہے توتفتیشی اس کو ڈپٹی پرا سیکیوٹر جنرل کوریفر کر یگا اورریفرنس داخل کرنے کیلئے حتمی فیصلے کیلئے معاملہ چیئر مین نیب کو بھجوایا جائے گا، ریفرنس دا خل کر نے یا نہ کر نے کے بارے میںچیئرمین نیب کا فیصلہ حتمی ہوگا۔رولز میں کہا گیا کہ کسی بھی شخص کو قواعد و ضوابط سے ہٹ کر گرفتار نہیں کیا جائے گا جبکہ گرفتاری کے حوالے سے چیئر مین نیب گائیڈ لائن جاری کر ینگے۔نیب وزارت دا خلہ رولز اور طریقہ کار کے مطابق کسی ملزم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کر سکتا ہے ، نیب ریڈ نو ٹس جا ری کرنے کی درخواست بھی کر سکتا ہے اورکسی بھی ملزم کی واپسی کی درخواست کر سکتا ہے ،مجو زہ رولز میں کہا گیاکہ چیئر مین نیب اور پرا سیکیوٹر جنرل نیب اس وقت تک اپنے عہدو ں پر قائم رہ سکتے ہیں جب تک انکی جگہ کسی دوسرے کو تعینات نہیں کر دیا جاتا۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ غیر معینہ مدت تک تحقیقات جاری رکھنے سے احتساب کا پورا عمل اپنی ساکھ کھو رہا ہے۔ کسی شخص پر الزام لگتا ہے اور وہ تاخیری حربے استعمال کرنا شروع کردیتا ہے۔ بعض ملزم بیماری کا عذر پیش کر کے بیرون ملک چلے جاتے ہیں‘ کئی ملک سے فرار ہو جاتے ہیں‘ کچھ جعلی میڈیکل دستاویزات کی بنیاد پر تفتیشی ٹیم کے روبرو پیش نہیں ہوتے‘ بعض احتسابی نظام میں کسی معمولی مہرے کو خرید کر اپنے خلاف قانونی کارروائی سست کروا دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں بعض اوقات ان افراد سے زیادتی ہو جاتی ہے جو بے گناہ ہونے کے باوجود کسی نیب کارروائی میں پکڑے جاتے ہیں۔ مہینوں کیا‘ دو تین سال لگ جاتے ہیں پھر کہیں ضمانت ملتی ہے یا پھر بے گناہ قرار دیئے جاتے ہیں۔ اس دوران ان کا خاندان‘ روزگار اور عزت خاک میں مل چکا ہوتا ہے۔ وہ ساری زندگی اٹھنے کے قابل نہیں رہتے۔ ان امور کو دیکھتے ہوئے نیب انکوائری کے لیے چار ماہ کی مدت کا تعین نیب سے متعلق شکایات میں کمی کا باعث ہوسکتا ہے۔ نیب کے طریقہ کار پر ایک اعتراض یہ رہا ہے کہ ملزم کو پہلے پکڑ لیا جاتا ہے جبکہ اصولی طورپر جرح کے ارتکاب کے ٹھوس شواہد دستیاب ہونے پر گرفتاری کی جانی چاہیے۔ اس شکایت کو رفع کرنے کے لیے ملزم کی کسی بھی مرحلے پر گرفتاری سے کئی قانونی مسائل حل ہو سکیں گے۔ ملک بھر میں ایسے بے شمار جرائم ہوتے ہیں جو ابتدا میں جرم دکھائی نہیں دیتے مگر طریقہ کار بتاتا ہے کہ اس معاملے میں ملوث لوگوں کی نیت جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ہاﺅسنگ سکیموں کو قسطوں میں فروخت کرنا‘ ہاﺅسنگ سکیموں کے لیے فارموں کی فروخت‘ کئی طرح کی لاٹریاں اور سرمایہ کاری سکیمیں 99 فیصد فراڈ ہوتی ہیں لیکن جب تک لوگوں کو پتہ چلتا ہے مجرم ملک سے فرار ہو کر کسی گمنام علاقے میں آباد ہو چکا ہوتا ہے۔ اس لیے نیب کو اگر یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کسی معاملے کومشتبہ قرار دے کر اس کے حوالے سے قانون کے مطابق کارروائی کر سکے تو بہت سے افراد لٹنے سے بچ جائیں گے۔ نیب ضابطوں کے متعلق تجاویز صدر کو پیش کی گئی ہیں۔ گزشتہ برس سابق چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ کو متحرک کیا تھا۔ نیب ترامیم کے حوالے سے موجودہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت جاری رہی۔ حکومت کا موقف ہے کہ اپوزیشن اپنی سفارشات منظور کروا کر اپنے لیڈروں کے لیے این آر او لینا چاہتی ہے جبکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت نیب کو مزید ایسے اختیارات دینا چاہتی ہے جس سے بلاوارنٹ گرفتاری ممکن ہو جائے گی۔ نیب ایکٹ میں بہرحال ترمیم وقت کی ضرورت ہے۔ نیب کو بے دانت کا ادارہ بنا کر رکھنے کا نقصان قوم پچھلے بیس سال سے اٹھا رہی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here