سیاسی کانٹے!!!

0
147
ماجد جرال
ماجد جرال

 

 

صاحب یہ بڑا دشوار ہوتا ہے کہ انسان اپنے جس راستے پر کانٹے بوتا ہوا جائے اور اس کو واپس اسی راستے پر آنا پڑے، یہ جتنا آسان لگتا ہے اتنا آسان نہیں، یہ کانٹے انسان کی عزت اور تکریم کو چھلنی کر کے رکھ دیتے ہیں۔ پاکستان کے سیاستدانوں کی چند برائیوں میں سے یہ ایک نمایاں برائی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو ہمیشہ ان کی یہی برائی اقتدار کے محلات میں بسیرا کرواتی رہی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے الزامات کی لاتوں اور گھونسوں سے جو ایک دوسرے کو زخمی کیا تھا، بعدمیں انہیں زخموں پر تعاون کی مرہم لگا رہے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں نے ماضی میں اس سوچ کو پروان چڑھایا کہ الزامات سیاست کو زندہ رکھنے کے لئے آکسیجن کا کام کرتی ہے، ماضی میں ایک دوسرے پر الزامات کی ویڈیوز ان دونوں جماعتوں کے سامنے رکھی جائے تو یہ اپنے سر شرمندگی سے جھکا لیتے ہیں۔ دونوں جماعتیں اب عہد کرتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ ہم مستقبل میں سیاست کو الزامات کی برچھیوں سے زخمی نہیں کریں گے۔ خدا کرے کہ یہ اس پر قائم و دائم رہیں اور اسی میں پاکستانی قوم کا بھلا ہے۔ جس حلوہ کا مزہ یہ دونوں جماعتیں ماضی میں چکھ چکی ہیں، وہ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان کے سیاسی کچن کی سب سے عمدہ ڈش ہے۔ حیران کن طور پر پاکستان کے سب سے بڑے اور نمایاں صحافتی گروپ جنگ اور جیو کی جانب سے اپنے مالک میر شکیل الرحمان کی رہائی کے فورا بعد حامد میر صاحب نے اپنے پروگرام میں نہ صرف عمران خان کی ماضی کی تقریروں بلکہ ان کے ساتھ چمٹے ہوئے موجودہ وزیروں کی ان کے بارے میں رائے پر بھی پروگرام کیا۔ یہ ذرا ماضی کے وہ نا خدا کہ جو عمران خان کو طعنے دیا کرتے تھے کہ ان کے پاس تانگے کی سواری نہیں اور وہ وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں، یہ وہ حضرات ہیں جو عمران خان کو طعنہ دیا کرتے تھے کہ آپ نے بنی گالہ کی پہاڑیوں پر قبضہ کر کے محل بنا رکھا ہے۔ ایک نظر سے دیکھا جائے تو آج عمران خان اس پوزیشن میں ہے کہ ان تمام وزراءکو سامنے بٹھا کر پوچھے اوئے “شیدے ٹلی” آج تیرے پاس ٹانگے کی سواری نہیں اور میری جماعت کی سپورٹ کے بغیر تم اپنی سیاست سمیت دفن ہو جاﺅ۔اوئے بابر اعوان تم کو میں نے یہ پروٹوکول اور حکومتی پاور اس لیے دی ہے کہ تم میرے بنی گالا کے کیس پرسٹے بھی نہ لے سکو۔پرویز الٰہی دیکھو میں نے کتنی بڑی قربانی دی ہے ماضی میں تم کو ڈاکو کہتا رہا اور آج میں چوہدری شجاعت حسین سے یہ کہنے میں بالکل نہیں ہچکچاتا کہ عمران خان کو پرویزالٰہی ہی سمجھیں۔عمران خان کی شخصیت اتنی متنازع ہونے میں شاید کسی اور کا اتنا نہ ہو جتنا ان کا اپنا کردار ہے۔خان صاحب سیاست اگر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں رہ کر کی جائے تو یہ مداری کے تماشے سے زیادہ کچھ نہیں۔بچہ یہ کر کے دکھا، بچہ وہ کر کے دکھا۔آپ نے ابھی آدھا سفر بھی طے نہیں کیا اور شاید کوئی ایک انچ جگہ بھی نہیں چھوڑی جہاں آپ نے کانٹا نہ بویا ہو۔ آپ جو این آراو نہ دینے کی بات کرتے ہیں، سچ پوچھیں تو کمال کرتے ہیں۔ آپ سیاستدان تو وہ قوم ہیں جو کہتے ہیں کہ دعاو¿ں سے بہت کچھ ہوتا ہے، بلاشبہ جس پر میرا بھی یقین ہے، مگر اسٹیبلشمنٹ ایک پرانی انگریزی فلم(جس کا نام میں بھی بھول چکا ہوں) کے اس محاورے سے متاثر لگتی ہے جس میں فلم کا ہیرو گاﺅں کے لوگوں کو ہمیشہ دعا کرتے ہوئے دیکھ کر کہتا ہے کہ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here