مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک
آج کل پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے، وہ ناقابل بیان ہے، اچھے اچھے سفید پوش روٹی روزی سے تنگ ہیں، کسی سے کہہ بھی نہیں سکتے رہ بھی نہیں سکتے، شاید اسی لئے اللہ رب العزت نے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا تھا۔ البقرہ آیت نمبر 273 ، خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب معاش کیلئے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کر سکتے۔ ان کی خود داری دیکھ کر ناواقف لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ تو خوش حال ہیں لیکن تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو، مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ ھ کر کچھ مانگیں۔ ان کی مدد کیلئے جو کچھ مال تم خرچ کرو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہیں رہےگا۔ سبحان اللہ کیا خوبصورت نصیحت ہے۔ آج کل واقعی سفید پوش چہروں کو دیکھ کر ہمیں پہچاننا ہوگا۔ کہ حاجت مند کون ہے؟ حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ جس طرح علم کا سمندر تھے اسی طرح دل دریا سخی اور رحم دل بھی تھے۔ اکثر آپ مستحقین کی ڈھونڈ ڈھونڈ کر مدد کیا کرتے تھے اور کبھی کبھی لوگ ضرورت مند ایک جگہ پر بیٹھ جاتے، تعلیم سے فارغ ہو جاتے حسب استطاعت ان کی مدد کر دیتے۔ اسی زمانے میں ایک نیک نام تاجر دیوالیہ ہو گیا مگر اچھے دنوں میں مخلوق خدا کی خدمت کرنا نہ بھولتا تھا۔ جب عادت دینے کی پڑ چکی ہو تو لینا جان جوکھوں کا کام ہے، جب ہر چیز بک بکا گئی فاقوں کی نوبت آگئی ایک دن ایک خربوزے والا دروازہ سے گزرا بچی نے شور مچا دیا مجھے خربوزہ چاہیے دونوں میاں بیوی پریشان ہو گئے، مگر خربوزہ نہ خرید سکے۔بیوی نے کہا سنو امام ابو حنیفہ ایک نیک انسان ہیں غریبوں کی مدد کرتے ہیں آج تم جاﺅ ان سے مدد کی درخواست کرو دل پر پتھر رکھ کر امام صاحب کی مجلس میں کونے میں بیٹھ گیا جہاں حاجت مند بیٹھتے تھے۔ جب اس کی باری آئی تو غیرت سے اُٹھ کھڑا ہوا، بغیر کچھ کہے سنے اور لئے ایک طرف چل پڑا۔ امام صاحب بھی چُپکے سے پیچھے چل پڑے، جس گھر میں داخل ہوا، امام صاحب نے اچھی طرح پہچان لیا، واپس آگئے رات کے اندھیرے میں ایک تھیلی میں پانچ سو درہم ڈالے اور ایک رقعہ لکھ کر اندر رکھ دیا۔ میرا نام نعمان ابن ثابت امام ابو حنیفہ ہے اس تھیلی میں پانچ سو درہم ہیں یہ حلال کی کمائی ہے تم اسے بلا تکلف اپنے مصرف میں لا سکتے ہو۔ تاجر کا دروازہ کھٹکھٹایا اندھیرے میں تھیلی پکڑائی اور واپس تشریف لے آئے تاجر نے تھیلی کھولی رقعہ پڑھا، بے اختیار منہ سے نکلا یہ ہیں وہ لوگ جو قرآن پڑھ کر سمجھ کر اس پر عمل کرتے ہیں۔ ہم لوگوں نے قرآن صرف مرنے والوں کیلئے رکھ چھوڑا ہے حالانکہ یہ کام بھی بُرا نہیں ہے مگر قرآن پاک کی اصل تعلیم وہی ہے جو ہمارے اسلاف نے ہمارے لئے چھوڑی ہے۔
٭٭٭