انا اور خود فہمی!!!

0
205
پیر مکرم الحق

پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com

آج سیاست سے لوٹ کر ہم انسانی نفسیات کے عام فہم موضوع کو زیر بحث لاتے ہیں۔ہم میں سے اکثر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ انا اور خودی یا خود فہمی ایک ہیں بات ہے ایسا ہرگز نہیں انا پرست لوگ بدقسمتی سے اپنے کو افضل اور دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں۔اناجسے انگریزی میںEGOکہا جاتا ہے اسے اپنے فیصلوں اور رویوں کی بنیاد بناتا ہے کیونکہ انا پرست اپنے آپ کو خوبیوں کا مالک سمجھتا ہے جو وہ دوسروں میں نہیں دیکھ پاتا جبکہ خود فہمی یعنی اپنے آپ کی سمجھ رکھنے والا اپنی(کمی) سے بھی آگاہ ہوتا ہے۔باعلم لوگ اس ٹہنی کی طرح ہوتے ہیں جس میں پھل موجود ہوتا ہے اسی لئے ان میں کسر نفسی ہوتی ہے۔لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ انہیں اپنے باعلم ہونے کااحساس نہیں ہوتا بلکہ انہیں اپنے علم کیوجہ سے غرور وتکبر نہیں ہوتا اور انہیں احساس ہوتا ہے کہ علم وہ بےکنارہ سمندر ہے جس سے مستفید ہونے والے لوگ ایک سے بڑھ کر ایک ہوتے ہیں، دوسرے الفاظ میں علم کی پیاس وہ کبھی بجھنے نہیں دیتا اور اس سلسلے میں اپنے کو مکمل نہیں سمجھتے بہتر سے بہتر کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔انا جبکہ ایک ایسا زمر ہوتا ہے جو اس سے اپنے دوست احباب تو کیا اپنے گھر کے افراد بھی دور کر دیتا ہے،لوگ اسکی خود پرستی سے تنگ آجاتے ہیں۔
کائنات اور دنیا کا نظام ایک توازن پر چل رہا ہے۔اگر وہ توازن خراب ہوتا ہے زلزلے اور دوسری آسمانی آفات آجاتے ہیں۔جب کائنات کا نظام توازن کھودیگا اس دن قیامت آجائیگی۔زندگی کا نظام بھی اسی توازن کا محتاج ہے اور جب زندگی کا توازن بگڑتا ہے تو انسان بیمار ہو جاتا ہے بیماری صرف جسم کی نہیں ہوتی ہے ذہنی نفسیاتی بیماریاں بھی جان لیوا ثابت ہوتیں ہیں۔اسی لئے زندگی میں اعتدال نہایت ضروری ہے۔خود اعتمادی اچھی بات ہے جبکہ خود پرستی ایک عذاب ہے جو انسان اپنے آپ پر برپا کرتا ہے۔اس سے بچنے کیلئے انسان کو خود فہمی یا خود آگاہی کو حاصل کرنا پڑتا اور اپنے کو سمجھنا ہی بہت مشکل کام ہے اور یہ آسان نہیں بلکہ جھد مسلسل ہے جس کیلئے ایک دفعہ اسی رستے پر آنا ضروری ہے ایک مرتبہ آپ اپنی منزل کا تعین کر لیتے ہیں۔پھر راستے تلاش کرنا مشکل کام نہیں خود آگاہی کیلئے ضروری ہے کہ آپ اپنے ساتھ روزانہ کچھ وقت گزاریں مانا کہ یہ کام آج کے دور میں مشکل ہوتا جارہا ہے۔ہر انسان اتنا مصروف ہوتا جارہا ہے کہ کسی کے پاس کچھ کرنے کے لئے وقت ہی نہیں پھر بھی لوگ جسمانی ورزش، سیر سفر کیلئے وقت نکال ہی لیتے ہیں۔مشکل ضرور ہوتا ہے ناممکن نہیں!۔
جب جسم کو صحتمند رکھنے کیلئے وقت نکالا جاسکتا ہے تو روح کو صحت کیلئے وقت کیوں نہیں نکالا جاسکتا ہے یہاں روح کا لفظ استعمال کیا گیا ہے لیکن اسے نفسیاتی صحت بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ انا پرستی کی بیماری روحانی یا نفسیاتی طور پر انسان کو بیمار اور پھر کمزور کر دیتی ہے کیونکہ ایسا بیمار انسان دوسروں کو کمتر سمجھتے سمجھتے اپنی کمزوریوں سے غافل ہو جاتا ہے۔کمزوری یا بیماری کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن اس سے آگاہی نہ رکھنا ایک عذاب ثابت ہوسکتا ہے جب تک مریض اپنی بیماری سے غافل رہتا ہے بیماری بڑھتی رہتی ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے جب وہ بیماری لاعلاج ہوجاتی ہے یہی منطق انسانی کمزوریوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔اسی لئے خود شناسی کے سفر کا آغاز زندگی کے بھٹکنے کا توڑ ہے۔یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ کوئی کسی سے کمتر نہیں ہوتا ہم سب میں کمزوریاں ہیں لیکن ہم سب میں اچھایاں بھی موجود ہیں۔یہی اچھایاں ہماری طاقت ہیں۔ایک نابینا شخص دنیا کے نظاروں کو دیکھنے سے محروم رہتا ہے جب تک کہ اسکی بینائی واپس نہیں آتی اسی طرح ہمارے اندر کی خامیاں جب تک بہتر نہیں ہوتیں ہم اپنی زندگی سے پوری طرح انصاف نہیں کرسکتے۔اس لئے اپنے اندر جھانکتے رہنا ہماری مدد کرسکتا ہے۔جسے انگریزی زبان میںSELF ANALYSISکہتے اور اردو میں اسے خود احتسابی کہیں گے۔روزانہ رات کو سونے سے پہلے اپنے گزرے دن پر ایک نظر دوڑائیں اور بیلنس شیٹ بنائیں کہ آج کے دن میں کیا اچھا کیا اور کیا برا کیا ہے۔جو برا کیا اس کا ازلہ کیسے ہوسکتا ہے اور جو اچھا کیا ہے اس سے بہتر کیا جاسکتا ہے۔کس کو دکھ تو نہیں پہنچایا اور اگر آپکی وجہ سے کسے دکھ پہنچا ہے تو کیا اس سے معافی نہیں مانگنی چاہئے؟کسی کو دھوکا تو نہیں دیا؟آپ کی کسی حرکت سے کسی کو نقصان تو نہیں ہوا؟یہی باتیں ہیں جس سے آپ کی ذات کا احتساب آپ خود ہی کرسکتے ہیں۔
قارئین ہم سب اس بات کا رونا ہوتے رہتے ہیں کہ زمانہ خراب ہے معاشرہ بگڑ گیا ہے لیکن معاشرہ تو افراد کے اجتماع سے ہی بنتا ہے اور معاشرے کے رونے کے بجائے ہم اپنے آپ کی اصلاح کریں تو معاشرہ بہتر ہوسکتا ہے۔ملک بہتر ہوسکتا ہے لیکن جب تک ہم خود احتساب نہیں کرینگے۔اپنی اپنی اصلاح نہیں کرینگے معاشرے اور ملک کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔راقم بھی آپ ہی میں سے ہے نہ ہی کوئی ماہر نفسیات ہوں۔یہاں البتہ نفسیات کا ایک ادنیٰ طالبعلم ہوں جس کے چھوٹے سے دماغ میں جو باتیں آتی ہیں وہ رکھ دیتا ہوں اگر کوئی بات آپ کو بری لگی ہو تو معافی کا درخواستگار ہوں،اچھی بات کہہ دینی چاہئے۔
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here