مجیب ایس لودھی، نیویارک
امریکہ میں انتخابی نتائج آج بھی خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں لیکن ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ ڈیموکریٹس نے یہ انتخابات نہیں جیتے بلکہ ٹرمپ نے خود یہ الیکشن ہارا ہے ، جی ہاں ٹرمپ نے اپنی حد سے زیادہ نفرت آمیز پالیسیوں کی وجہ سے اس الیکشن میں شکست کھائی ہے ، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف شدید نفرت کا اظہار ، اپنے ہی سکیورٹی اداروں ، ایف بی آئی، ہوم لینڈ سیکیورٹی کے حکام سے ناراضگی کا اظہار اور ان کی قابلیت پر سوالات اٹھانے سمیت اہم ملکی اور بین الاقوامی امور پر بھی اپنی من مرضیوں نے ٹرمپ کو آج شکست کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ، دوسری طرف نئی حکومت میں جوبائیڈن نے اپنی انتظامیہ میں خواتین کی اکثریت کو منتخب کیا ہے ، نائب صدر کمیلا ہیرس کی بھی ترجیح ہے کہ ان کے سٹاف میں خواتین اور بالخصوص بھارتی نژاد خواتین کی تعداد زیادہ ر ہے ، بعض ماہرین کے مطابق کمیلا ہیرس کی جانب سے بھارتی نژاد خواتین کو زیادہ تعداد میں ہائر کرنے کی وجہ 2024کے انتخابات کے لیے بطور صدر اپنے لیے راہ ہموار کرنا ہے جوکہ بہت خطرناک پالیسی ہے کیونکہ اس کو ڈیموکریٹس کے دیگر اراکین کسی صورت بھی قبول نہیں کریں گے اور اس کا بڑا بُرا ردعمل سامنے آئے گا ، ابھی سے کچھ ڈیموکریٹس اراکین کمیلا ہیرس کے اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اگر کمیلا نے اپنے لیے سٹیج سجانے کی کوشش کی تو اس کے دھڑا م سے گرنے کا خدشہ موجود ہے۔
یہ بات بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ امریکہ جتنا بڑا بھی جمہوریت کا علمبردار ہو یہاں کی عوام نے کبھی بھی خاتون کی حکمرانی کو قبول نہیں کیا ہے اور حکمرانی کا خواب دیکھنے والی خواتین کو شکست کا سامنا ہوا ہے جس کی تازہ مثال ہیلری کلنٹن کی ہے جوکہ صدر کے لیے مضبوط ترین امیدوار ہونے کے باوجود کامیابی حاصل نہ کرپائیں ۔بہت سے ایشیائی ممالک میں خواتین حکمرانی کر چکی ہیں ، پاکستان میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو وزیراعظم کے منصب پر فائز رہیں ، بھارت میں اندراگاندھی اوربنگلہ دیش میں شیخ حسینہ نے حکمرانی کی ہے لیکن امریکہ میں خاتون سربراہ کا تصور پروا ن نہیں چڑھ سکا ہے خیر کمیلاہیرس کو یہ بات سمجھ لینا چاہئے کہ 2024کیلئے اپنی حکمرانی کا خواب ان کو اور پارٹی کو سخت نقصان پہنچا سکتا ہے ۔
بھارتی نژاد خواتین اور مردوں کی امریکی انتظامیہ میں بھرمار پاکستانی مسلم کمیونٹی کے لیے بھی لمحہ فکریہ بن گیا ہے کہ وہ اس میدان میں پیچھے کیوں رہ گئے ہیں ، پاکستانی کمیونٹی کو بھی انتظامیہ میں اہم عہدے ملنے چاہئے تھے اس کی دو وجوہات نظر آ رہی ہیں ، ایک تو کمیلا ہیرس کا خود بھارتی نژاد ہونا ہے جوکہ چاہتی ہیں کہ ان کے ملک سے خواتین ان کے ساتھ کام کریں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستانی مسلم کمیونٹی کی سیاست میں بہت کم دلچسپی ہے ، ٹرمپ کی پالیسیوں نے ان کو ضرور جگایا ہے اور مسلم ووٹرز کا ٹرن آﺅٹ بھی تاریخی رہا ہے لیکن صرف یہ کافی نہیں ہے ،پاکستانی و مسلم کمیونٹی کو چاہئے کہ وہ وائٹ ہاﺅس میں اپنی جگہ بنانے کے لیے کام کرے کیونکہ امریکی پالیسیوں میں جہاں بھارتی نژاد شہریوں کی رائے شامل ہوگی تو وہاں پاکستانی مسلم افراد کی رائے کو بھی شامل کیا جانا چاہئے ۔
پاکستانی و مسلم کمیونٹی نے خود کو کافی متحرک کیا ہے لیکن اب ضرورت اس عمل کی ہے کہ پاکستانی کمیونٹی خود کو کسی پارٹی کے ساتھ وابستہ کرے تاکہ انتظامی عہدوں کے حصول کا راستہ اپنایا جا سکے ناکہ صرف خودکو ووٹوں تک ہی محددود رکھا جا ئے ۔پاکستانی و مسلم کمیونٹی میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنے اہداف کو حاصل کر سکیں جیسا کہ انھوں نے مسلمانوں کیخلاف پالیسیوں پر ٹرمپ کو اقتدار سے باہر کر کے اپنا ہدف باخوبی حاصل کیا ہے ۔
٭٭٭