آنکھیں جو دیکھتی ہیں!!!

0
153
کامل احمر

امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ہم بھول ہی گئے کہ ہم پاکستان سے آئے یہاں بسے مہاجر ہیں دوسرے مہاجرین کی طرح جو ضرورت اور اپنی دوسری خواہشات کی تکمیل کیلئے یہاں آکر بسے ہیں، ہمیں کبھی اس بات کا دُکھ نہیں ةو اکہ یہاں کیوں آئے اور پاکستان کیوں چھوڑ دیا، جب بہت چھوٹے تھے تو اپنے والد جو ریلوے میں اسٹیشن ماسٹر تھے کےساتھ پاکستان آگئے مہاجر کہلائے یا ہمیشہ کیلئے دوسرے صوبوں کے باسیوں نے مہاجر بنا دیا اور تین نسلوں کے بعد بھی مہاجر کہلائے جاتے ہیں جن کی شناخت نہیں اور پاکستان میں بسی چار قوموں پنجابی، پٹھان، سندھی اور بلوچی کے علاوہ کسی اور کا نام نہیں لیا جاتا بس کہا جاتا ہے اردو اسپیکنگ جو کراچی میں بستے ہیں اور کوٹہ سسٹم کے وار کر کر کے ادھ مرا کر دیا گیا ہے اب وہ نہ تو سندھ سیکرٹریٹ میں ملیں گے اور نہ ہی کسی سرکاری ملازمت میں ان کو امیدوار سمجھا جاتا ہے۔ ایسا کرنے میں دوسروں کا ہاتھ تو ہے ہی لیکن ایک نا معقول بے ظرف انسان نے مہاجروں کے حقوق پر زرداری اور نوازشریف کی حکومت سے لین دین کر کے بھی تباہ کیا ہے، سیاست ایک بہترین عمل ہے ملک اور قوم کو ترقی کے راستے پر لے جانے کا لیکن لیڈر کو گاندھی، نہرو، منڈیلا اور قائداعظم کےساتھ لیاقت علی کا جگر چاہیے ان لیڈروں نے اپنی عیش کی زندگی کو خیر باد کہہ دیا، اپنی زمینیں کسانوں میں بانٹ دیں اور قوم کی خاطر گولی کھا کر شہید ہو گئے اور ان کے مزار کی حالت ایک عام شہری کی قبر کی طرح ہے کچھ عرصے کے بعد اس کا نشان بھی نہ رہے گا۔ شاید۔ ملک کی تباہی کا آغاز ہمارے مشاہدے کے مطابق بھٹو صاحب کی قیادت کے بعد شروع ہوا تھا، ہم انہیں ذہین لیکن توڑ پھوڑ کرنے والا کہیں گے۔ امریکہ کو بھٹو پسند نہیں تھا اور ضیاءالحق کے دور میں انہیں پھانسی کے تخت پر لٹکا دیا گیا یہ ایک نہایت تکلیف دہ امر ہے اور رہے گا کہ یہ ایک عدالتی قتل تھا اور عدالتیں یہی تھیں ان کے ججز بھی آج کے ججوں کی طرح تھے جن سے کچھ بھی کروایا جا سکت اہے اور یہ فارغ ہو کر اپنے آقاﺅں کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔ سیاستدان یہ نہیں جو ملک کی دولت لوٹ کر بھاگے ہوئے ہیں، سیاستدان وہ ہیں جو ملک میں رہ کر ہی سختیاں جھیلتے ہیں اور جان دے دیتے ہیں۔ چی گوارا، ڈاکٹر مالکم ایکس، ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ ان سب نے قوم کی خاطر جانیں دیں اور امر ہو گئے وہ زرداری اور نوازشریف کی ناپاک اور ملک دشمن سیاست کے منافی تھے ہم یہ بھی کہتے چلیں کہ کہاوت ہے جیسی پرجا ویسا راجہ اور قرآن پاک میں بھی یہی کہا گیا ہے۔ زرداری اور نوازشریف جو کچھ کر کے گئے ہیں عوام کی اکثریت یا تو بھول چکی ہے یا پھر وہ بھی ان ہی کی طرح بے ایمان اور لوٹ مار کا مال کھانے کے عادی ہو چکے ہیں اور ان ساری چور جماعتوں کے جلسے میں ہجوم دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اب ان کی اولادیں عوام پر مسلط کی جا رہی ہیں۔ ملتان کے حالیہ جلسے میں جو عمران خان کے مخالف گیدڑوں (لیڈروں کی جگہ) کے کچھ بناسپتی افراد کو سنا تو قوم پر رونا آیا میڈیا نے زرداری کی چھوٹی بیٹی آصفہ بھٹو کو یہ کہہ کر خراج عقیدت پیش کیا جیسے کسی فلم میں نئی اداکارہ کی اداکاری کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے، آصفہ بھٹو (جو کہیں سے بھٹو نہیں بلاول کی طرح) نے بینظیر شہید کا انداز اپنایا لکھی ہوئی تقریر کے تحت، بھٹو کا مشن اور بینظیر کا خواب پورا کرینگے۔ ہم گرفتاریوں سے ڈرنے والے نہیں۔
مریم نواز نے لَنّ ترانی کی، ہم عمران خان کا لاک ڈاﺅن کرینگے انہوں نے عمران سے اقتدار چھوڑنے کا بھی مطالبہ کیا عمران خان کی چار بکریوں کا ذکر کیا اور انکشاف کیا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم چل رہی ہے ہمیں یقین ہے کہ اگر آج امریکہ نوازشریف یا مریم نواز کو اقتدار دلوا دے تو اسرائیل کو تسلیم کرنے میں یہ دونوں دیر نہیں کرینگے کہ ان کا باپ اور زرداری پہلے ہی غلامی کا طوغ پہن چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو ہم کسی گنتی میں نہیں رکھتے کہ یہ تینوں سے بد تر اور منافق انسان ہے جو اقتدار کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کو ایسے ہی لوگوں کی تلاش ہوتی ہے کسی بھی ملک کی معیشت اور معاشرے کو تباہ کرنے کیلئے لیکن ملک کی تباہی میں میڈیا بھی اپنا حصہ ڈالتا رہتا ہے، سلیم صافی اور مجیب الرحمن شامی کے بھیس میں آپ سلیم صافی کا شاہد آفریدی اور شعیب اختر سے انٹرویو کا ویڈیو دیکھ لیں خہ یہ بے عقل آدمی (صحافی کہنا صحافت کی توہین ہے) دونوں سے عمران خان کیلئے پوچھتا ہے کہ یہ لیڈر کیوں بنا، سلیم صافی صاحب ہم ایک معصومانہ سوال پوچھتے ہیں، آپ صحافی کیسے بنے اور عرصہ سے بنے ہوئے ہیں تو صحافت کی تعریف میں صرف ایک جملہ لکھ دیں کہ صحافت کس چڑیا کا نام ہے آپ کے اندر کا جواب ہوگا۔ ضمیر کو بیچنے کا، صحافت کی بات ہے اور آنکھیں جو دیکھتی اور کان جو سنتے ہیں تو میڈیا کے ایک دلیر اور صاف گو صحافی عمران ریاض خان (یو ٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں) کا بھی ذکر کرنا ضروری ہے جنہوں نے پچھلے دنوں قومی اسمبلی کی مرد مار ممبر پلوشہ خان کو اپنے پروگرام سے نکل جانے کو کہا اور بار بار کہا جو زرداری پر لگے الزامات کا دفاع مادر پدر آزاد ہو کر کر رہی تھی نہ جانے وہ کیوں خود کو دوسری جگہ کیش نہیں کرواتی، اس سے بہتر تو کشمالہ طارق ہے ایک اینکر نے کہا نا کی دوسری یا تیسری شادی پر انسان شادی کرتا ہے تو شیطان ماتم کرتا ہے، یہ مثال ہم نے پہلی بار سنی ہے اور کسی کتاب میں نہیں ملتی اس پیر کو عزیر بلوچ سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹ عام ہوئی ہے جس میں سینکڑوں جرائم، وارداتوں، بھتہ خوری کے انکشافات ہیں، پلوشہ خان ضرور پڑھیں جو خواب خرگوش میں ہیں۔ اس کتاب میں لکھا ہے فریال تالپور کو ایک کروڑ ماہانہ بھتہ جاتا تھا، عزیر بلوچ نے گرفتاری کے وقت رینجرز سے اپنی حفاظت کی درخواست بھی کی ہے کہ اسے زرداری سے خطرہ تھا اور رپورٹ میں رینجر زکے اہلکاروں حوالدار اعجاز اور منیر کوئنز محمد سے قتل کرانے کا انکشاف بھی ملکی راز ایران کے حوالے کرنے کا ذکر ہم چاہیں گے جنرل باجوہ اسے ضرور پڑھیں بہت کچھ ملے گا ملک دشمن بدمعاشوں کو سزا دینے کیلئے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here