ماجد جرال
وہ بھی کیا زمانہ تھا جب دھرنے کا نام سن کر ہی حکومتیں کانپ جایا کرتی تھیں اور فوری ہی دھرنے والوں کے تمام مطالبات پر بات چیت کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی جاتی ہے ، دیوار پر صرف نعرہ لکھا جاتا تھا کہ “ظالمو قاضی آرہا ہے” تو دوسری جانب حکومت کا فوری رد عمل آتا کہ قاضی صاحب آپ گھر ہی بیٹھیں، حکومتی نمائندے آپ کے پاس آ رہے ہیں۔ عوامی جوش وخروش اس وقت تک قائم رہتا جب تک قاضی صاحب باہر آکر یہ نہ کہتے کہ حکومت نے فلاں یقین دہانی کروا دی ہے اور فلاں کام ہو جائے گا۔ اب یہ انسانی فطرت ہے کہ جب کوئی ایک کام چل پڑے تو عوام اس کام کے پیچھے ہی چل پڑتی ہے جب تک اس کام کی اہمیت مرگ الموت نہ ہوجائے۔ میں نے تو کم ازکم آخری بار کوئی کامیاب لانگ مارچ نواز شریف کا دیکھا جو 2008 میں پیپلزپارٹی کے خلاف اور ججز کی بحالی کے لئے تھا۔ نواز شریف ججز کی بحالی کا نعرہ لگا کر لاہور سے دھیرے دھیرے چلے اور ابھی گوجرانوالہ ہی پہنچے تھے کہ حکومت نے تمام ججز کو بحال کرنے کا اعلان کردیا۔ ہم نے دیکھا کہ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو ججز بحالی کے لیے ایگزیکٹیو آرڈر دینا پڑا۔
بہرحال دھرنوں اور لانگ مارچ کا یہ بزنس پاکستان میں چل پڑا، پاکستان تحریک انصاف نے دھرنے اور لانگ مارچ کی سیاست کو جو چار چاند لگائے، یاد کرنے کی آڑ میں جو چاند چڑھائے وہ اپنی جگہ ایک مثال ہیں۔ 126 روزہ دھرنا اور اس سے قبل ایک لانگ مارچ تب کی ن لیگ حکومت کے لیے کسی حد تک تو پریشانی کا سبب بنا مگر جلد ہی حکومت نے دھرنے کے اثرات سے باہر نکلنے کے لیے اپنی ترجیحات کو بدلا جس کے سبب عمران خان اور طاہر القادری صاحب کو آئے روز کوئی نہ کوئی نیا شوشہ چھوڑنا پڑتا تھا۔ غرض دھرنوں کا یہ کاروبار اپنی اہمیت غیر ضروری طور پر کھو بیٹھا۔مزے کی بات یہ ہے کہ اب دھرنوں اور لانگ مارچ میں مزہ نہیں رہا، خصوصا ًکوئی بھی سیاسی جماعت پاکستان میں لانگ مارچ یا دھرنے کا اعلان کرتی ہے اور اس وقت تک یہ اعلان کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے جب تک کوئی مذہبی جماعت ان کے ساتھ نہ ہو جس کی بنیادی وجہ جلسوں، جلوسوں، دھرنوں اور لانگ مارچ میں انسانی سروں کا سمندر دیکھانے کے لیے عوام اکٹھا کرنا ہے۔ماضی میں جب ن لیگ کے خلاف پاکستان تحریک انصاف نے لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا تو یہ اس وقت تک موثر محسوس نہیں ہو رہا تھا جب تک علامہ طاہر القادری صاحب کی طرف سے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ اور دھرنے کا دست راست بننے کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ لاہور سے اسلام آباد تک یہ لانگ مارچ 2014 میں بطور صحافی میں نے بھی نیوز ون کے لیے کور کیا تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ اس وقت بھی پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان لاہور جماعت کے ساتھ تھے مگر راوی کے پل کو کراس کرنے کی ہمت نہ کر سکے، اس سے آگے علامہ طاہرالقادری کی تنظیم کے لوگ ہی بڑے تھے اور اسلام آباد میں بھی اس اجتماع کو بڑا دیکھانے میں ان کی حاضری کارگر ثابت ہوئی۔ اب ایسی ہی کچھ صورتحال پی ڈی ایم کو بھی درپیش ہے، عوام کی اکثریت سڑکوں پر دکھانے کے لئے جمیعت علماءاسلام کی خدمات حاصل کی گئیں، آپ ایک لمحے کے لیے بھی تصور کریں کہ مولانا فضل الرحمن کل پی ڈی ایم سے علیحدگی کا اعلان کر دیتے ہیں تو اس تحریک میں کتنی جان باقی رہ جائے گی۔ بنیادی طور پر دھرنوں اور لانگ مارچ کا 126 دن کا تجربہ رکھنے والی جماعت کو یہی ایک فائدہ ہے کہ وہ ان سے جلد گھبرانے والی نہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ اپوزیشن کی جانب سے جنوری میں حکومت جانے کی باتیں کوئی خاص اہمیت کی حامل ہیں۔
دوسری جانب عمران خان کی حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی یا سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی زبان میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی مکمل سپورٹ حاصل ہے اور شاید ایسے ہی موقع کے لئے کہا گیا تھا کہ
جب میاں بیوی راضی
تو کیا کرے گا قاضی۔۔۔۔۔۔
٭٭٭