مجیب ایس لودھی، نیویارک
امریکہ میں گزشتہ کئی سالوں سے معاشرہ اپنی مصروف ترین اورروایتی زندگی کی ڈگر پر چل رہا تھا لیکن ٹرمپ دور حکومت نے سب کچھ تہس نہس کر دیا بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ٹرمپ امریکہ کو کئی دہائیاں پیچھے لے گئے ہیں جب امریکہ میں سفید فام شہریوں کی اجارہ داری تھی جس کے دوران سیاہ فام اور دیگر کمیونٹیز کا جینا محال ہو گیا تھا بالکل اُسی طرح ٹرمپ کے دور حکومت میں بھی ماضی کی منظر کشی واضح انداز میں نظر آئی ہے ، ٹرمپ نے دور اقتدار سنبھالتے ہی سفید فام شہریوں کے حق میں آواز بلند کی تو دوسری طرف خاص طور پر مسلمانوں کو ہدف تنقید بنایا مسلم ممالک پر پابندیاں عائد کیں ،ٹرمپ کی اس نسل پرستانہ اور متعصبانہ سوچ کی مسلم صحافی ، وکیل اور ٹی وی میزبان وجاہت علی نے خوب مذمت کی ہے ۔نیویارک ٹائمز میں اپنے آرٹیکل میں ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے حمایتی بھی ٹرمپ ذہنیت رکھتے ہیں اس لیے ان کے پاس جا کر ان کو سمجھانا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے ، وہ کسی صورت ٹرمپ کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ٹرمپ نے نسل پرستی کو ہوا دی ہے اور انتہا پسند سوچ رکھنے والے افراد کی ترجمانی کرتے ہوئے مسلمانوں کو خاص تنقید کا نشانہ بنایا ہے ، ٹرمپ نے اپنے ٹی وی انٹرویو کے دوران کہا کہ انھوں نے نیوجرسی کے مسلمانوں کو نائن الیون میںہونے والی ہلاکتوں کا جشن مناتے ہوئے ویڈیو دیکھی ہے اگر انھوں نے ویڈیو دیکھی تو وہ لوگوں کے سامنے لائی جائے ، اس کے علاوہ نیوزی لینڈ میں مسلم مسجد میں ہونے والے حملے کے دوران پچاس سے زائد ہلاکتوں پر کیویز وزیراعظم نے مسلم کمیونٹی اور لواحقین سے اظہار ہمدردی کیا جبکہ ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹ میں اس واقعہ کو دہشتگردی کہہ کر سمیٹ دیا ، مسلم کمیونٹی سے کوئی اظہار ہمدردی نہیں کیا ۔وجاہت علی کا کہنا تھا کہ نیوزی لینڈ مسجد کے حملہ آور نے بھی invasion کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ ان کے نظریے کی ترویج کرتے ہیں جبکہ امیگریشن کے مسائل پر پریس کانفرنس کے دوران ٹرمپ نے بھی invasion کا لفظ استعمال کیا ، اس کے علاوہ” کے کے گروپ“ بھی ٹرمپ کی انتہاپسند اور تعصب پسند سوچ کا شیدائی ہے ۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ مسلم لڑکیوں سے زیادتی کرنے والے میکسیکن اور امریکی جرائم پیشہ افراد کی مالی مدد کرنے والی یہودی شخصیت نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے بھرپور مالی مدد بھی کی ہے ۔انھوں نے بتایا کہ یہ سب حقائق بتانے کی بنیادی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے دور حکومت کی پوری عمارت انتہا پسندی ، نفرت آمیزی ، اسلام فوبیا کی بنیادوں پر کھڑی کی گئی جوکہ اب منہدم ہونے کے قریب پہنچ گئی ہے ۔
وجاہت علی نے نیویارک ٹائمز کے ساتھ سماجی رابطے کی بڑی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر بھی اپنا بھرپور اظہار خیال کرتے ہوئے ایسے سفید فام شہریوں پر تعجب کا اظہار کیا جوکہ یسوح مسیح (حضرت عیسیٰ علیہ اسلام ) کی تعلیمات پر یقین رکھتے ہوئے ٹرمپ جیسی شخصیت پر مر مٹنے کے لیے تیار ہیں اور ان کے خلا ف کوئی بات سننا نہیں چاہتے ہیں ۔انھوں نے ری پبلیکن گورنرز پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ٹرمپ کی ایما پر کورونا وائرس کے تدارک کے لیے اقدامات نہیں کیے اور آج ان سب کو مبارک ہو کہ پہلی مرتبہ روزانہ کورونا کے پچاس ہزار سے زائد کیسز رجسٹرڈ ہو رہے ہیں ، معروف ٹی وی چینل سی این این کو انٹرویو کے دوران وجاہت علی نے کہا کہ ٹرمپ کی چار سالہ کامیابی صرف انتہاپسندی کو ہوا دینا ہی ہے ، جب ان سے یہودیوں اور سفید فام شہریوں کی جانب سے مسلمانوں سے ناروا سلوک کی بات کی جائے تو کہتے ہیں کہ یہودی اور سفید فام شہری درست ہیں اور جب سپین میں مسلمان ایک کار پر حملہ آور ہوئے تو ٹرمپ نے ان کیخلاف سخت ترین الفاظ استعمال کیے کیونکہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ سخت موقف کے حامی رہے ہیں ۔نیوزی لینڈ میں مسجد پر حملے کی مثال سب کے سامنے ہے ،اسی طرح ایم ایس این بی سی کو انٹرویو کے دوران بھی وجاہت علی نے ٹرمپ کی پالیسیوں کو انتہائی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کی نسل پرستانہ پالیسی سے تو ری پبلیکن کے اپنے ہی رہنما متفق نہیں ہیں ، آپ کو ان رہنماﺅں کو ٹی وی پر لینا چاہئے اور پوچھنا چاہئے کہ کیا وہ ٹرمپ کے پالیسیوں سے متفق ہیں۔خیر صدارتی انتخابات 2020میں عوام نے اپنا فیصلہ سنا تے ہوئے ٹرمپ کو بائے بائے اور بائیڈن کو ویلکم کیا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ بائیڈن ٹرمپ کی تمام متنازع قانون سازیوں کو پہلے ہی دن امریکہ سے آﺅٹ کر دیں گے جس کے بعد امریکہ کا معاشرہ دوبارہ پرامن راستے پر چل نکلے گا۔
٭٭٭