مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک
جس زمانے میں ہم جی رہے ہیں اس زمانے میں جس کو اقتدار مل جاتا ہے۔وہ سب سے پہلے عوام الناس کے مال پر ہاتھ صاف کرتا ہے اور اتنی صفائی سے کرتا ہے کہ اس جرم کو پکڑنا اور ثابت کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔اس کا جرم ڈھونڈنے میں عوام الناس کے پیسے کی رہی سہی کسر بھی نکل جاتی ہے اور پکڑنے والے بھی لمبے لمبے ہاتھ مار کر اس بہتی گنگا میں اشنان کرنا نہیں بھولتے مگر پرانے زمانے کے لوگ جنہیں آج ہم برا کہتے ہیں طعنے دیتے ہیں۔ان کے کردار کی عظمت آج بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔فاطمہ خلیفہ عبدالملک کی بیٹی تھی،اس نے شادی پر بے پناہ دولت اپنی بیٹی کو دی۔شادی کے بعد فاطمہ کا خاوند عمر بن عبدالعزیز تھا۔وہ خلیفہ بن گیا عمر بن عبدالعزیز نے اپنی بیوی سے کہا تمہارے پاس جتنا مال ہے وہ سارا کا سارا بیت المال میں جمع کرا دوچونکہ وہ مال مسلمانوں کا ہے ہمارا نہیں ہے اور سنو اگر تم بیت المال میں جمع نہ کرانا چاہو۔تو تمہیں اختیار ہے مگر پھر تم عمر بن عبدالعزیز کے گھر بیوی بن کر نہیں رہ سکتی۔فاطمہ نے خاوند کے سامنے سر جھکا دیا سارا مال بیت المال میں جمع کرا دیا ایک جوڑا کپڑا جو پہنا ہوا تھا۔وہی بچا ،نوکر چاکر ختم ،گھر کا کام کاج خود کرنا پڑا۔مگر اُف تک نہیں کی۔جب حضرت عمر بن عبدالعزیز کا انتقال ہوا تو یزیدین عبدالملک اس کا بھائی خلیفہ بن گیا۔بھائی اپنی بہن کے پاس چل کر آیااور کہا فاطمہ عمر نے تیرے ساتھ بڑی زیادتی کی تھی تیرا سارا سامان میں واپس کرا دیتا ہوں۔ذاتی مال چھین کر بیت المال میں بھجوا دیا تھا فاطمہ نے جواب دیا یزید خدا کی قسم جس کی میں نے زندگی میں تابعداری کی ہے ان کے مرنے کے بعد بھی میں ان کے خلاف بات نہیں کروں گی۔یہ مال و دولت میرے کس کام کا ،ان کی مرضی میری سب سے بڑی دولت ہے تو صاحبو گزرے لوگوں کو برُا کہنا آسان ہے۔مگر کاش ہمارا کردار بھی ان جیسا ہوتا مگر ہم نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ عوام الناس کو کبھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیں گے،آج بھوک وافلاس سے سسکتی بلکتی عوام مسیحا کی منتظر ہے۔
٭٭٭