پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
پاکستان میں اقلیتوں پر بڑھتے ہوئے مظالم کی داستانیں آئے دنوں اخباروں کی زینت بنتی ہیں۔آج جو پاکستانی تارکین وطن دوسرے ممالک میں قیام پذیر ہیں وہ اس تکلیف کو بخوبی محسوس کرسکتے ہیں۔جہاں وہ اقلیت میں رہ رہے ہوتے ہیں۔چاہے وہ یورپ ہو یا جنوبی امریکا ،سب سے بڑی بات ہے کہ اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ہدایت دی گئی ہے۔پاکستان میں ہندو اقلیت سب سے بڑی اقلیت ہے جن کی اکثریت سندھ میں صدیوں سے رہتی آئی ہے۔اسی طرح سکھوں کی اچھی خاصی تعداد بلوچستان اور پختونخواہ میں رہتی ہے۔مسیحوں(کرسچین) لوگوں کی ایک بڑی تعداد پنجاب میں آباد ہے۔اسی طرح حال ہی میں غیر مسلم قرار دیئے گئے احمدیوں کی بھی رہائش ربوہ کی وجہ سے پنجاب میں ہی ہے۔ سندھ میں کچھ شرارتی سیاستدانوں اور مذہبی پیشواﺅں نے ہندو بچوں کی زبردستی مسلمان کرکے انکی شادیاں مسلمان لڑکوں سے کروا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے جنت کما لی حالانکہ اسلام میں زبردستی اسلام قبول کرانی کی سخت ممانعت ہے اور اسی طرح زبردستی کا نکاح بھی جائز نہیں ہے۔لیکن ظالموں کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا اس لئے ان حقائق سے بےخبر ہے لوگ اسلام کے نادان دوست ہیں جو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔اسلام کے تصور کو اور حکومت سندھ بھی اس سراسر زیادتی کا کوئی نوٹس نہیں لے رہی ہے۔دوسری طرف پنجاب میں توہین رسالت کے قانون کا سہارا لیتے ہوئے مسیحی برادری کے لوگوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں۔زندہ جلانے سے لیکر جھوٹے الزامات لگا کر ذاتی دشمنوں کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے جیل اور حوالات بھیجا جارہا ہے جس سے انکی زندگی اجیرن کی جارہی ہے کیو نکہ توہین رسالت کی سزا موت ہے، اس لئے اس میں محض بے بنیاد الزامات لگا کر انہیں جیتے جی جہنم رسید کیا جارہا ہے۔اس قانون کے غلط استعمال سے بھی پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے ،ایسے قانون کے منصفانہ استعمال کیلئے ایک باقائدہ طریقہ کار اور ایسے مقدمات بنانے کیلئے ایک بورڈ یا کمیٹی ہونی چاہئے اور کوئی مقدمہ کسی کے دباﺅ میں آکر نہیں بننا چاہئے۔اسی طرح احمدیوں پر مظالم دن بدن بڑھتے جارہے ہیں ،کسی کو کوئی حق نہیں کہ وہ کسی کے مذہب کی وجہ سے قتل کردیا جائے”حکم دین حکم و لیدین“ہمارا جو عقیدہ ہے کہ حضور پاک محمدﷺ نبی آخر زماں ہیں انکے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا اس عقیدے پر ہم قائم ہیں، کوئی اگر اس حقیقت سے انکار کرتا ہے تو وہ ازخود واجب القتل نہیں کیونکہ اگر اس طرح کی سوچ لیکر چلے تو پھر تو تمام غیر مذاہب کے لوگ واجب القتل ہو جائیں گے۔پڑھے لکھے لوگوں کی معاشرے میں سب سے بڑی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تمام لوگوں کی رہنمائی کریں اور مذہبی جنونیت کی جانب جانے سے روکے نہ کہ اسے اور ہوا دیکر لوگوں میں اشتعال پھیلائیں اور فساد کروائیں۔اسلام کے سب سے بڑے دشمن وہ لوگ ہیں جو اسلام کا نام استعمال کرکے فساد پھیلا رہے ہیں۔دوسروں کے عقائد کی وجہ سے نفرتیں نہ بڑھائیں تو معاشرے میں امن رہےگا۔ورنہ ہم پاکستانیوں اور ہندوستان کے انتہا پسند ہندوﺅں میں کوئی فرق نہیں رہیگا جو راہ چلتے مسلمان کوپکڑ کے مارتے ہیں۔اسلام سلامتی کا مذہب ہے امن اور درگزر کا مذہب ہے جیو اور جینے دو کا مذہب ہے تعصب اور اقلیتوں پر ظلم کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔سب سے زیادہ تعداد میں اقلیتیں سندھ اور پنجاب میں آباد ہیں۔دونوں صوبائی حکومتوں کو قوانین اور طریقہ کار کو وضع کرنا پڑیگا تاکہ اقلیتوں کے ساتھ کوئی ظلم اور زیادتی نہ ہوپائے۔زبردستی کی شادیوں اور تبدیلی،مذہب کے خلاف سخت قوانین بنائے جائیں اگر کوئی مولوی یا اس کا مددگار ان قوانین کے خلاف نکاح پڑھائیں تو پھر انہیں جیل بھیج کر مناسب سزا دی جائے یہی ایک موثر طریقہ ہے اس زیادتی کو روکنے کا ۔پنجاب اور سرحد میں توہین رسالت کے قانون کے نفاذ اور حقائق کے مستحقین کیلئے ایک طریقہ کار بنوا کر یقین کروایا جائے کہ کسی بےگناہ کو نہ مقدمہ بھگتنا پڑے نہ ہی ناکردہ جرم کی سزا ہو اس کی تعلیمی نصاب کے ذریعے بھی حقائق پر مبنی صحیح اسلامی اقدار اور سنت رسول کی تعلیم دی جائے تاکہ ایک بہتر اور صحت مند معاشرہ قائم کیا جاسکے۔
اگر ہم مسلمان دوسرے مذاہب کو برُا بھلا نہیں کہیں گے تو وہ بھی ہمارا احترام کرینگے اسلام کو ادب کی نگاہ سے دیکھیں گے۔عالمی سطح پر پاکستان اور مسلمانوں کا ایک بہتر تصور Image اٹھے گا۔ویسے ہی خدا غارت کرے القائدہ اور داعش کو، جن کی حرکتوں کیوجہ سے اسلام ایک پرتشدد اور بے رحمانہ مذہب سمجھا جانے لگا ہے جبکہ حقیقتاً وہ اس کے برعکس ہے اور ہمیں مسلمان ہونے پر فخر ہے ، انسانی حقوق کااصل نسخہ تو چودہ سو سال پہلے لکھا گیا تھا جسے اقوام متحدہ کے اکابرین بھی تسلیم کرتے ہیں۔
٭٭٭