بدلتے نظر آرہے ہیں پاکستان ترکی اور ایران اس وقت مغرب کی توپوں کے زد پر ہیں۔ان پڑوسی ممالک میں سے کسی ایک کو نشانہ بنانے پر دوسرا متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں پائےگا اس لئے یہ اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ کی بادشاہتوں نے تو اپنا قبلہ تبدیل کرلیا ہے اپنے اپنے شاہانہ طرز حیات کو بچانے کیلئے ہندوستان اور اسرائیل سے مفاہمت کا آغاز کرلیا ہے پاکستان کا تیل بند کرنے کی دھمکیاں دیں جارہی ہیں حال ہی میں دیا گیا قرضہ جس کی واپسی دس سال میں ہونی تھی وہ فوراً واپس لے لیا گیا ہے اور ایسے تمام اقدام پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کرکے اور تنہا کرنے کی کوشش ہے۔اس لئے بطور واقعہ اسلامی ممالک جو ایٹمی قوت بھی رکھتا ہو ہمیں بھی اپنے راستے بدلنے پڑینگے۔شاہوں کو بتانا ہوگا ہم کرائے کے ٹٹو نہیں جو تمہارے اشاروں پر لڑیں مریں اور تم بھی ہمیں مارنے کی کوشش کرو پھر بھی ہم خاموش رہیں۔بہرحال اس سلسلے میں سب سے پہلے ہمیں متبادل مارکیٹیں تلاش کرنی ہونگی جس میں مشرق وسطیٰ میں مزدوری کرنے والے پاکستانیوں کو کھپا سکیں یا پھر پاکستان میں فوری طور پر بڑا منصوبہ لانا ہوگا جس میں گاﺅں گاﺅں شہر شہر گھروں میں دستکاری سلائی کڑاہی سے لیکر مشینوں کے پارٹس بنانے کی مشینیں لگا کرNGOSاور کامیاب پرائیویٹ کمپنیوں کو شامل کرنا ہوگا چین سے مدد میں اضافہ کرنا ہوگا۔سعودی حکومت چین، ترکی اور ایران سے ہمارے تعلقات پر معترض ہے لیکن ہمیں اپنے ملکی مفادات کو اولین ترجیح دینی ہے ہم کسی شیخ کے مزارے نہیں اب وقت آگیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے شیخوں سے جھوٹی امدادیں لگانا چھوڑ کر اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ ملکر نئے اور موثر اتحاد بنائے جائیں۔اگر نارتھ کوریا جیسا ملک مغربی طاقتوں کو آگے رکھ کر من مانی کرسکتا ہے تو ہم بھی اپنے ملک کے بہترین مفاد میں بہت کچھ لیکن اسکے لئے ہمیں اپنی معنوں سے کالی بھیڑوں سے پاک کرنا ہوگا۔فوج کو بھی اپنا قبلہ درست کرکے اندرونی سیاست میں دلچسپی لینے کے بجائے اپنی رفائی حکمت عملی کو بہترین انداز میں ترتیب دینا پڑیگا بار بار امریکہ یا سعودی عرب کے چکر لگانے کے بجائے ترکی اور ایران میں اپنے ہم عہدہ ہم مصروں سے ملاقاتیں کرکے اپنے کو مضبوط کریں کسی ایک ملک سے تکنیکی مدد لینے کے بجائے متبادل سپلائہ لائین بنائیں۔
بین الاقوامی طور پر ہے تاثر عامہ ہوتا جارہی ہے کہ پاکستان کی افواج اب رٹیل اسٹیٹ کی گرو ردہ ہو کر اندرونی سیاست کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔جنگ لڑنا اب انکے بس کی بات نہیں مانتے ہیں کہ یہ تاثر ہندوستانی پروپیگنڈہ نے بڑھا چڑھا کر پیدا کیا ہے لیکن اسے یکسر رد بھی نہیں کیا جاسکتا اس لئے پلاٹوں کی بندر باٹ اور بعداز ریٹائرمنٹ فوج کے اعلیٰ افسران پر مال کی بارش بند کرکے سادگی اور بچت کا نمونہ فوج کو رول ماڈل بننا پڑیگا۔بدعنوانی اور کمیشن مافیا اگر فوج میں بھی ہے تو سخت سے سخت سزائیں دیکر ثابت کرنا ہوگا کہ بدعنوانی ہرگز برداشت نہیں کی جائیگی۔اگر یہ فوج اندرونی طور پر اپنے اداروں میں کرے تو سول اداروں کو بدعنوانی کی ہمت بھی نہیں ہوگی۔
پھر اس بات کا ذکر کرنا فرض ہے کہ اپنے لوگوں پر رحم کریں چھوٹے صوبوں میں بھی طاقت کااستعمال گھر کی مرغیاں مارنے کے برابر ہے اس سے ملک مزید کمزور ہوگا۔اگر کوئی بھی آدمی کسی جرم کا مرتکب ہے تو اسے قانونی طریقے سے گرفتار کریں کھلی عدالتوں میں مقدمات چلائیں لیکن اغوا کرنا قومی اداروں کیلئے وہ بھی اپنے ہی شہریوں کا انتہائی شرمناک عمل ہیں اسے افسران یا اداروں کے سربراہ ملک دشمنی کے مرتکب ہیں۔اگر ملک کی عوام میں فوج کا منفی تاثر پیدا ہوگا تو وہ فوج دشمنوں سے کسے نبزد آزما ہوسکتی ہے۔غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کرنا بھی بند کریں۔اپنے لوگوں سے جو ناراض ہیں بات چیت کریں انکے جائز مطالبات تسلیم کرنا ریاست کی عزت سے بےغرتی نہیں پشتون محاذ، بلوچ ناراض عناصر اور سندھی قوم پرستوں سب سے ریاست مکالمہ کرے، اگر گھر متعدد نہیں تو دشمن کا فائدہ اٹھانا لازم ہے۔اس لئے گھر کو مضبوط کریں پڑوسی ملکوں سے رابطے میں رہیں گے جو باتیں ہیں کوئی راکٹ سائنس نہیں بنیادی باتیں ہیں شاید کے اتر جائے گہرے دل میں راکٹ سائنس نہیں مری بات!۔