قارئین پوچھتے ہونگے اگر پوچھ نہیں سکتے تو سوچتے کہ آخر قاضی فائز عیسیٰ نے کیا قصور کیا ہے جس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہے، قاضی فائز عیسیٰ نے ابھی تک تو کوئی قصور نہیں کیا تو پھر ان سے حکمرانوں کو کیا شکایت ہے؟ حکمرانوں کو خطرہ ہے قاضی فائز عیسیٰ کے آئندہ کئے جانے والے فیصلوں میں قاضی صاحب ایک پڑھے لکھے خاندانی آدمی ہیں ،آزاد منشی ہیں، اپنی آزاد سوچ رکھتے ہیں وہ ربڑ اسٹیمپ بننے کو تیار نہیں ہیں اور حکمرانوں کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ آئندہ چیف جسٹس آف پاکستان کی آسامی کیلئے سینئر ترین جج ہیں اور ماضی کے تمام سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں فقط سینئر ترین سپریم کورٹ کے جج کو ہی چیف جسٹس بنایا جا سکتا ہے اگر جسٹس قاضی بن گئے چیف جسٹس سپریم کورٹ تو کیوں کہ قاضی ہیں پیشے اور نام دونوں کی نسبت سے اس لئے ہر فیصلے میں عدل کرینگے جو کہ حکمرانوں کی مرضی کےخلاف بھی جا رہا ہو تو نہیں ہچکچائیں گے۔ حکمرانوں کی عادتیں ربڑ اسٹیمپ ججوں نے خراب کی ہوئی ہیں، انہیں قاضی فائز پسند نہیں ہیں اس لئے کہ اگر وہ سپریم کورٹ کے جج کے عہدے پر فائز رہتے ہیں تو مجبوراً انہیں ہی چیف جسٹس بنانا پڑےگا، اسی لئے انہیں راہ میں پڑے پتھر کی طرح راستے سے ہٹانا مقصود ہے لیکن ایک جی دار باپ کے بیٹے قاضی فائز عیسیٰ ڈٹ گئے ہیں ورنہ کوئی عام سا آدمی ان کی جگہ ہوتا تو کبھی کا جا چکا ہوتا یا قتل کروا دیا جاتا،وکیلوں نے بھی ایک ہنگامہ کھڑا کیا ہوا ہے، منیر ملک اور علی احمد کرد جیسے وکلاء ابھی سینہ ٹھوک کر قاضی صاحب کا مقدمہ عدالت میں اور عدالت سے باہر لڑنے کیلئے میدان میں آگئے ہیں۔سرداروں کے کئی لطیفے مشہور ہیں لیکن میرا پسندیدہ لطیفہ جو قاضی صاحب کو خطرہ سمجھنے والے حکمرانوں سے مماثلت رکھتاہے وہ لطیفہ بیان کئے دیتا ہوں کہ ایک گاﺅں کے سردار نے گنے کی کاشت کے سلسلے میں اپنے تمام سکھ بھائیوں کا اجلاس بلایا ،ایک سیانے سردار نے کہا کہ بھاﺅ جی ہم سارے بدنام ہیں کہ ہم لوگ پہلے کام کرتے ہیں اور پھر سوچتے ہیں تو آئیے پہلے سوچتے ہیں کہ گنے کی کاشت کے سلسلے میں کیا اقدامات کرنے ہیں تو سر جوڑ کر سارے سردار بیٹھ گئے تو کسی سیانے نے کہا بھائیو گنے تو لگا دیئے ہیں پڑوس کے گاﺅں والے مسلمان سارا گنا چوری کر کے چُوس لیں گے تو پھر ہمیں تو خسارہ ہی ہوگا، دوسرے نے کہا کہ اس کی روک تھام کیلئے کیا تجویز ہے سیانے سردار نے تجویز دی کہ چلئے پہلے مسلمانوں کی خُوب مرمت کرتے ہیں تاکہ وہ خوفزدہ ہو کر کبھی ہمارے گاﺅں کی طرف دیکھیں بھی نہیں اور اس طرح ہمارا گنا محفوظ رہے گا، تمام سرداروں کو یہ سن کر خوشی ہوئی کہ چلو کوئی تو ہمارے درمیان سیانہ بھی ہے پھر کیا تھا لاٹھیاں اٹھائیں اور نکل پڑے برابر کے گاﺅں کے مسلمانوں کو سبق سکھانے، رات کا وقت تھا محو خواب مسلمانوں کی دھنائی شروع کر دی، سکھوں نے، ساتھ میں کہتے جا رہے تھے ”ہور چُوپو“ مسلمان نیند سے بوکھلا کے اُٹھے اور پوچھا، سردار جی کی ہویا کی ہویا، دسو تے سئی، سردار کہتے رہے کہ ہور چُوپو! پوچھنے پر مسلمانوں کو بتایا کہ گنا! مسلمانوں نے ارد گرد دیکھا اور پھر سوال کیا کہ کیہڑا گناَ سردار کہنے لگے ”جیڑا اسی لانا اے“
وہی حساب ہماری اسٹیبلشمنٹ یا اصلی تے وڈے حکمرانوں کا ہے جو خوفزدہ ہیں قاضی صاحب کے بحیثیت چیف جسٹس، گمشدہ بلوچوں، سندھیوں اور پشتونوں کے لوگ جو آئے دن ایجنسیاں اپنا داماد سمجھ کر اٹھا لے جاتی ہیں اور آدھے شدید تشدد کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں باقیوں کو کئی سال قید تنہائی کے عذاب میں ذہنی طور پر بیمار کر کے چھوڑ دیتے ہیں سب سے زیادہ لا پتہ افراد بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان ہیں اور قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بھی بلوچستان کے قدیمی خاندان سے ہے، اسی طرح کے کئی مقدمات آج بھی عدالتوں کی فائلوں میںہیں ،کوئی جج ان کو ہاتھ لگانے کی جرا¿ت نہیں کرتا کیونکہ ان مقدمات کے سرے رینجرز، فرنٹیئر فورس، ایم آئی اور آئی ایس آئی کےساتھ ملتے ہیں، ہر کسی کو اپنی اور اپنے خاندان کی جانیں اور عزتیں عزیز ہیں لیکن حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اتنا ظلم کریں جو کبھی ان پر ہو تو وہ برداشت بھی کر سکیں، ظلم رہے نہ رہے ظالم کا خاتمہ یقینی ہے، بڑے بڑے فرعونوں کیلئے قاضی فائز عیسیٰ ہی موسیٰ بنے۔ آخر میں صرف اتنا کہنے پر اکتفاءکرونگا کہ خدارا سپریم کورٹ زمین پر اعلیٰ ترین عدالت ہے تمام ملکی عدالتیں بدعنوانی اور وردی کے خوف کا شکار ہیں کم از کم زمین پر اس آخری عدالت کو کوئی با ضمیر چیف جسٹس ایک مرتبہ ہی سہی،دے دو، اس بزرگ ضعیف آدمی سے اتنے خوفزدہ کیوں ہو، اگر اس کا حق ہے چیف جسٹس بننے کا تو اسے بننے دو، کیوں اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہو۔
٭٭٭