الفرید نوبل نے مرنے سے قبل وصیت میں لکھ دیا تھا کہ اس کی دولت ہر سال ایسے افراد یا اداروں کو انعام کے طور پر دی جائے جنہوں نے مندرجہ ذیل میں سے کسی ایک میدان میں کارنامہ انجام دیا ہو۔•ادب، •کیمیا، •امن، •طبعیا، •فزیالوجی، •طب، یہ تقریب ہر سال 10 دسمبر کو ہوتی ہے جو کہ الفرید نوبل کی تاریخ وفات ہے۔ 1968میں اس میں معاشیات کا بھی اضافہ ہوا۔ پچھلے دنوں اخبار میں ایک خبر دیکھنے کو ملی جس میں پھر اس سال نوبل انعامات کیلئے مختلف لوگوں کو نوبل انعام کیلئے منتخب کیا جا رہا ہے۔ نوبل انعام سے یاد آیا کہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں سال 2005 اور 2006 میں جب دہشت گرد، باہمی رضامندی سے قبائلی علاقہ جات میں داخل ہوئے اور وہاں پر ڈیرے ڈال کر وہاں رچ بس گئے تو ان دہشت گردوں نے جن کو طالبان کہا جاتا تھا ، یو این او کی جانب سے اس نام پر بعد میں پابندی لگ گئی اور ان کا نام دہشت گرد رکھا گیا کیونکہ طالبان سٹوڈنٹس کو کہتے ہیں، یاد رہے کہ خیبر پختون خواہ کا قبائلی علاقہ جو کہ پہلے ایک خود مختار علاقہ تھا وہاں مَلک یعنی علاقہ کے مشر کی اجازت کے بغیر کوئی علاقہ میں داخل نہیں ہوسکتاتھا ،دوسری بات یہ کہ قبائلی علاقہ وفاقی حکومت کے سپرد تھا، لہٰذا ان کے مستقبل کے فیصلے فیڈرل گورنمنٹ کرتی تھی۔ جب طالبان نے قبائلی علاقہ جات میں اپنی حکومت قائم کرلی اور باقاعدہ اپنے ریڈیو سٹیشنز کھول دئیے اور ان ریڈیو سٹیشنز پر اعلانات کیا کرتے تھے۔ان دنوں انہوں نے خواتین کو انتہائی بے دردی کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا جن پر پاکستانی تمام ادارے بشمول انسانی حقوق کے ادارے اور خصوصاً خواتین کے حقوق کے ادارے ، عدالتیں اور چیف ایگزیگٹیوں کے دور میں اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں پر منتخب خواتین بھی خاموش تھیں، قبائلی علاقہ جات میں خواتین کھیتوں میں خود کاشت کاری کا کام کرتی ہیں جبکہ مرد باہر مزدوری کیلئے جاتے ہیں۔ 2006 میں طالبان جن کو بعد میں دہشت گرد کانام دیا گیا انہوں نے خواتین پر پہلی پابندی یہ لگائی کہ وہ کھیتوں میں کام نہیں کرینگی اس کے ساتھ ہی دوسری پابندی یہ لگائی کہ خواتین مکمل پردہ کرینگی یعنی تمام خواتین پر برقعہ پہننا لازم ہوگیا جبکہ قبائلی علاقہ جات میں برقع کا کوئی رواج نہیں تھا ،وہاں خواتین عموماً عام چادرو اور دوپٹوں میں باہر نکلتی تھیں۔ تیسری پابندی ان خواتین پر یہ لگائی گئی کہ خواتین مختلف شہروں سے روزمرہ ضرورت کا سامان اور کپڑے وغیرہ لا کر بیچا کرتی تھی جس سے ان کی روزی روٹی چل رہی تھی فاٹا کی خواتین جو کہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی تھیں، ان کو مکمل طور پر پابند کر دیا گیا اور ہر طرح کے کام سے روک دیا گیا۔خواتین کی مذمت پر ان کو گاڑیوں اور تانگوں سے ا±تار کر چابک یعنی ڈھنڈے سے بندھی رسی سے مارا جاتا تھا جن کے گواہان ایک میں بھی ہوں۔ چوتھی پابندی ان پر یہ لگائی گئی کہ بچیوں کے سکول بند کر دیئے گئے اور ان کی تعلیم پر پابندی لگادی گئی۔ بچیوں کے سکول بموں سے ا±ڑا دیئے گئے اور آخری پابندی ان پر یہ لگادی گئی کہ دہشت گرد تنظیموں میں جس علاقہ میں گھر میں کوئی لڑکی ہوتی اور لشکر کا سربراہ اس کی شادی کا اعلان کرتا تو لڑکی رضامندی اور لڑکی کے گھر والوں کی رضامندی جانے بغیر اس لڑکی کی شادی لشکر میں کسی سے بھی کروا دی جاتی جس کو انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے ادارے اور پاکستان کی عدالتیں زبردستی کی شادی کانام دیتے ہیں لیکن افسوس کہ ا±س وقت سب خاموش تھے یا ان کے علم میں نہیں تھا۔ لڑکیوں اور چھوٹے بچوں کو زبردستی مدرسوں میں داخل کر دیا گیا جس میں ان لڑکیوں سے ان طالبان کے گھریلو کام کروائے جاتے تھے یعنی ان کے کپڑے دھونا ان کیلئے کھانا پکانا۔ یاد رہے کہ دہشت گرد کوئی جنات نہیں ہوتے یہ ہماری طرح انسان ہوتے ہیں، ان کو بھوک بھی لگتی ہے اور ان کی باقی ضروریات بھی ہوتی ہیں جیسے جنسی خواہشات، کپڑے روٹی پانی خرچے کے پیسے بندوق کی گولیاں وغیرہ وغیرہ۔ فاٹا کی خواتین کے ساتھ کیا سلوک ہوتا رہا اس پر ٹی وی ، انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے ادارے اور ا±س وقت کے علاقہ کے مشران جو ناک پر مکھی بیٹھنے پر بھی گولی چلایا کرتے تھے خاموش تھے۔ یہ سب ہونے کے بعد جب فاٹا میں آپریشن شروع ہوا تو خواتین ، بچے اور خصوصاً وہ خواتین جو حاملہ تھیں وہ اپنی جان بچا کر پہاڑوں سے شہروں تک کا سفر پیدل بغیر جوتوں کے اپنے بچوں کو لیکر کئی کئی دن اور ہفتے سفر کر کے بغیر کھائے پیئے شہروں تک پہنچی جہاں سے ان کو بے گھر لوگوں کے خیموں میں پہنچا دیا گیا۔ ان خیموں میں ان خواتین اور بچوں نے کتنے سال گزارے اور ان کے ساتھ کیا ہوا کسی کو علم نہیں ۔ یہ خواتین آج بھی اپنے پیاروں اور اپنے تلخ ماضی کو یاد کر کے روتی ہیں، کسی کے بچے لاپتہ ہیں تو کسی کا باپ کسی کا شوہر لاپتہ ہے تو کسی کا بھائی۔
آج یاد آیا کہ 10 دسمبر کو تو الفریڈ نوبل کی روح تڑپ رہی ہوگی اگر ان خواتین کو یاد نہ رکھا گیا تو ان خواتین پر سیاست اور این جی اوز چمکانے والے آج کل مارکیٹ میں بہت دستیاب ہیں لیکن ان خواتین کا کہیں نام و نشان نہیں ہے جنہوں نے افغان جنگ کی وجہ سے امن کیلئے قربانیاں دیں جو ہماری جنگ تھی ہی نہیں۔
٭٭٭