تقسیم کرو اور حکومت کرو!!!

0
186
پیر مکرم الحق

پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com

انگریز نے اسی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر آدھی دنیا پر راج کیا جب یہ کہا جاتا تھا کہ برطانوی راج کا سورج نہیں غروب ہوتا تھا تو واقعی یہ ایک حقیقت ہے کہ برطانوی راج دنیا کے ہر کونے میں موجود تھا اور اگر ایک جگہ پرسورج غروب ہوتا تھا تو راج کے تحت کسی اورملک میں طلوع ہو رہا ہوتا تھالیکن مکاری اور دھوکے بازی کا یہ راج زیادہ وقت نہیں چل سکا اور دنیا نے یہ دیکھا کہ اس راج کو تمام محکوم ملکوں سے نکلنا پڑا اور اب برطانیہ کے اندر اسکاٹ لینڈ کا خطہ بھی اس راج سے نجات چاہتا ہے۔جھوٹ مکرو فریب کا راج کبھی بھی پائیدار نہیں ہوتا۔آج پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بھی اپنے پرانے آقاﺅں کے نش قدم پر چل کر وہی کھیل اپنے ملکی سیاست میں کھیلنے کی کوشش کر رہی ہے۔اور شیخ چلی کی طرح جس ٹھنی پر بیٹھی ہے اسے ہی کاٹ رہی ہے۔خان صاحب کی حکومت کو بچانے کیلئے مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی میں موجود اپنے چھاڑتوں کو اس کام پر لگا دیا ہے کہ کسی طرح ان دونوں جماعتوں میں ٹکراﺅ پیدا کریں اور ان جماعتوں کے مابین اتنی دوریاں پیدا کی جائیں کہ یہ کبھی بھی اکٹھے نہ ہوپائیں۔بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ کسی حد تک کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔ان سیاسی جماعتوں کے اندر آج بھی بہت سارے نثار چوہدری موجود ہیں جو کے کہتے رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل جل کر چلیں جتنا اقتدار مل سکے لیکر شکر کریں۔مکمل اقتدار کبھی کسی کو نہیں ملا نہ آئندہ بھی ملے گا۔یہ شکست خوردہ ذہنیت بے ایمان اور ناعقبت اندیش سیاستدانوں کی تو ہو سکتی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو اور بےنظیر بھٹو کے جیالوں اور کارکنوں کی نہیں ہوسکتی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ بدقسمتی سے پی پی پی کی باگ ڈور اب کنونشن لیگ کی ذہنیت پرکھنے والے پرانی سیاست کرنے والوں کے ہاتھ لگ گئی ہے۔ورنہ اگر آج بھی بلاول بھٹو اور آصفہ کو پارٹی کی پالیسی سازی میں اہم کردار سونپا جائے تو وہ بہتر فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیںلیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پی پی پی آج ان لوگوں کی یرغمال بنی ہوئی ہے جنہیں محترمہ نے ہمیشہ نہ صرف سیاست سے دور رہنے کی تلقین کی بلکہ اپنی زندگی میں جماعتی معاملات میں بھی دخل اندازی کی اجازت نہیں دی اور ان حقائق سے وہ سب حضرات بخوبی واقف ہیںجنہوں نے محترمہ کی زندگی کے آخری برسوں میں ان کے قریب اور پراعتماد ساتھی رہے۔پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ آمریت سے نجات کے لئے ایک مضبوط اور مربوط جمہوری اتحاد لازم وملزوم ہے۔محترمہ بےنظیر بھٹو نے اپنی سیاسی بصیرت کو استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ جمہوری اتحاد کو قائم رکھا اور قائم رکھنے کیلئے کسی مواقع پر گڑوی گولی بھی نگلی کیونکہ وہ پوری طرح آگاہ تھی کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں کو آپس میں بھڑوا کراپنا مطلب نکالتے ہیںاور سیاسی جماعتوںکو اکیلا کرکے انکی توڑ پھوڑ میں مشغول بھی ہو جاتے ہیں۔جب سیاسی قیادت کھڑی ہوتی ہے تو اس پر حملہ کرنا آسان ہوتا ہے اور یہی نفسیات جنگ کی سائنس کا پہلا سبق ہے،دشمن کو پہلے اندر سے کمزور کرو پھر باہرسے حملہ کرو۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ(ن) کا کردار بھی قابل رشک نہیں میاں صاحب نے بھی میثاق جمہوریت کی دھجیاں اڑائی ہیں۔یہ وقت ماضی کے تلخ تجربوں کو لیکر جھگڑنے کا نہیں اس وقت اسٹیبلشمنٹ میں صورتحال کو سامنے رکھے ہوئے ہے۔پہلا تو یہ کہ وہ کسی طرح عمران خان کو مشکل میں مدد کریں تاکہ وہ ہمیشہ کے لئے انکا تابعدار رہی۔عمران خان عالمی سطح پر ایک جانا پہچانا کردار ہے اس سے فائدہ کیسے ہو نئے وہ بلاواسطہ اپنی آمرانہ نظام کو چلاتے رہیں کیونکہ عالمی حالات مینامار(برما)جیسے فوجی ایکشن کیلئے ناموافق ہے۔2دوسرا یہ ہے کہ حزب مخالف کی دو بڑی جماعتوں کو باری باری لالی پاپ دکھا کر ڈنڈا بھی دکھایا جاتا رہا ہے۔وہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ دونوں جماعتوں کی سینئر قیادت تھک کر ذہنی طور پر صحیح فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکی ہے۔اس لئے اگر کچھ اور جھٹکے دیئے گئے تووہ ہڑ بڑا کر غلط فیصلے کرینگے۔
تیسرا(3)ہے کہ نوجوان قیادت(مریم اور بلاول) کو ڈرا دھمکا کر سینٹر اسٹیج سے ہٹایا جائے کیونکہ جب انہیں دھمکایا جائیگا تو ان کے والدین کہیں گے کہ ہم نہیں چاہتے کہ تم لوگوں کی جانوں کو خطرہ ہوپھر سے فیصلے کرنے کا عمل کلی طور پر پرانی قیادت کے پاس جائیگااورپھر وہی پرانے اورغلط فیصلے ہونگے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں جماعتوں کی پرانی اور نئی قیادت کو خلوص دل سے اس حکومت اور طاقتور حلقوں کے سامنے ڈٹ کر مکمل شفاف جمہوریت کا مطالبہ کرنا چاہئے ،اسکے علاوہ کوئی چارہ نہیں!!۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here