مجیب ایس لودھی، نیویارک
امریکہ میں بغیر روک ٹوک اسلحے کی خریداری ہمیشہ سے موضوع بحث رہی ہے جس کی وجہ سے فائرنگ واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور اس سلسلے میں میڈیا اہم کردار ادا کرنے سے قاصر ہے جوکہ فائرنگ کی رپورٹنگ میں بھی ایمانداری سے کام نہیں لے رہا ہے ، اگر فائرنگ کا واقعہ کسی مسلمان یا کالے شخص نے انجام دیا ہو تو ملک بھر میں اس کی نمایاں کوریج کی جاتی ہے ، ملزم کے مختلف خاکے اور نام کو خوب استعمال میں لایا جاتا ہے ، اس کی قومیت اور مذہب پر کڑی تنقید کی جاتی ہے لیکن اگر فائرنگ کا واقعہ کسی گورے شخص کی جانب سے پیش آیا ہو تو اس پر میڈیا کھسیانی بلی کی طرح آنکھیں بند کر لیتا ہے اور معاملے کو دبانے کی کوشش کرتا ہے ، امریکہ کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب گورے افراد کی انتہا پسندی کو نظر انداز کرتے ہوئے کالے افراد کے چھوٹے چھوٹے واقعات کو خوب اُچھالا گیا ہے ۔
امریکی کینیڈین ہوسٹ اور اینکر سٹیون کراﺅڈر نے اس اہم مسئلے کو اُٹھاتے ہوئے کہا کہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ میڈیا اندرون شہروں میں ہونے والے فائرنگ کے بڑے واقعات کی پردہ داری آخر کیوں کر رہا ہے؟کوئی بھی میڈیا آرگنائزیشن ان واقعات کو نمایاں کوریج دینے سے قاصر ہے ، صرف نیویارک میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران 80افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے ، نیویارک میں فائرنگ کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ہے ، شکاگو میں 20 کے قریب افراد فائرنگ کی زد میں آئے ہیں اور گزشتہ ہفتے یہ تعداد 40 کے قریب رہی ہے ، میڈیا فائرنگ کے ان واقعات کو اس طرح سے عوام کے سامنے پیش نہیں کر رہا ہے جس طرح کرنا چاہئے ،گزشتہ ہفتے اٹلانٹا اور بولڈر میں ہونے والے فائرنگ کے واقعات میں جتنی ہلاکتیں ہوئیں ، اس سے زیادہ ہلاکتیں شکاگو میں ایک ہفتے کے دوران ریکارڈ کی گئی ہیں لیکن اگر آپ شکاگو کی مقامی خبریں اور میڈیا کا جائزہ لیں تو ان واقعات کے متعلق اکا دُکا خبر نظر آجائے گی یعنی اس اہم مسئلے کو کوئی ہائی لائٹ نہیں کررہا ہے ۔حال ہی میںکولاراڈو میں ہونے والے فائرنگ کے واقعہ میں پولیس افسر سمیت دس افراد موت کی وادی میں چلے گئے ، ملزم نے گراسری سٹور کے باہر اچانک اندھا دھند فائرنگ کردی جس سے راہگیروں سمیت سٹور میں شاپنگ کے لیے آنے والے 10افراد ہلاک ہوئے جبکہ نائب صدر کمیلا ہیرس کی رہائش گاہ کے باہر ایک مشتبہ شخص کو رائفل میں گولیاں لوڈ کرتے حراست میں لیا گیا ہے ایسے واقعات معاشرے میں انتہا پسندی اور عدم برداشت بڑھنے کی عکاسی کرر ہے ہیں ۔ آج امریکہ گن فائرنگ کے واقعات میں دنیا بھر میں سرفہرست ہے۔ 1968ءسے 2011ء تک یہاں بندوق یا پستول سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد تمام جنگوں میں ہونے والی ہلاکتوں سے بھی زیادہ تھیں۔ ایک تحقیقاتی ادارے کے مطابق ان ہلاکتوں کی تعداد 14 لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی تھی جبکہ جنگ آزادی سے لے کر عراق جنگ سمیت ان ہلاکتوں کی تعداد 12لاکھ تھی۔ 2013ءسے اب تک کے واقعات کی تعداد تقریباً 291ء ہے۔ 2007ء میں ورجینیا ٹیکنیکل یونیورسٹی میں فائرنگ کے واقعے میں 32 لوگ مارے گئے۔ کیلیفورنیا میں ایک نمازی کو چاقو مار دینے، مین ہیٹن میں ایک باحجاب لڑکی کے کپڑوں کو آگ لگا دینے یا فلوریڈا میں فائرنگ سے ایک شخص کے ہاتھوں پولیس افسر کی ہلاکت جیسے پرتشدد واقعات کو تو معمولی واقعات قرار دے کر بھلا دیا جاتا ہے ،2012ء میں نیو ٹاو¿ن میں ایک سکول میں مسلح شخص کی فائرنگ سے 27 افراد کی ہلاکت۔ 2017ءمیں لاس ویگاس کے میوزک کنسرٹ کے دوران فائرنگ سے 58 افراد اور 2017ء میں ہی ٹیکساس کے ایک چرچ میں فائرنگ سے 26 افراد کی ہلاکت کے واقعات بہت لرزہ خیز ثابت ہوئے۔ امریکہ میں فائرنگ کے واقعات کو کم کرنے کے لیے ضرورت اس عمر کی ہے کہ اسلحے کی کھلے عام فروخت پر پابندی عائد کی جائے اور اس کی خریداری کے حوالے سے مراحل کو مزید پچیدہ اور موثر بنایا جائے تاکہ جرائم پیشہ افراد کو اسلحے کی رسائی سے دور رکھا جائے ۔
٭٭٭