کرونا وباءکی انسانیت پر یلغار نے پوری دنیا میں خوف و دہشت کی فضا قائم کر رکھی ہے۔ پہلی ،دوسری اور اب تیسری لہر نے پوری انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کہیں زندگی واپس لوٹ رہی ہے اور کہیں بے احتیاطی اور غیرسنجیدگی نے وباءکا اثر پھر دکھانا شروع کردیا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں ویکسین کا عمل تیزی سے جاری ہے جس سے زندگی دوبار لوٹ ہی ہے۔ محبتیں اپنی اصل شکل میں آتی دکھائی دے رہی ہیں۔ سکول ، کاروبار اور ادارے بند ہونے سے لوگ پریشان تھے۔ گھروں میں قید رہ کر بچے اور والدین جس اذیت ، مشکل اور سٹریس سے گزرے ا±سکے خاتمے کی طرف دنیا بڑھ رہی ہے۔ کاروبار زندگی کی بہاریں لوٹتی دکھائی دیتی ہیں۔ پرندوں کی چہک، فضاو¿ں میں ترنم اور پھول کی مہک ماحول کو م±عتر بنا رہی ہے۔ گزشتہ ایک سال جس کرب میں گزارہ اسکا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ ہم تودوستوں کی بیٹھک کو ترس گئے تھے۔ انسان جو زندگی گزارنے کے لئے ضروریات زندگی کے علاوہ رشتوں اور معاشرتی تعلقات کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان رشتوں جو کیسے نھبانا ہے انسانی کی اپنی سوچ پر منحصر ہے۔ کچھ لوگ ان رشتوں کو پوری خلوص دل سے نھباتے ہیں۔ کچھ لوگ صرف ضروریات کے تحت،منافقت کے ساتھ نھباتے ہیں۔ انسانیت اور منافقت کا رشتہ عرصہ دراز سے چلا آرہا ہے۔ آجکل یہ عام ہے۔ جو زبان اور عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔ بندہ جب منافقت جی سیڑھیاں چڑھنا شروع کرتا ہے۔ تو ہر ہر قدم پر جھوٹ بولتا ہے۔ حدیثیں سناتا ہے ، قرآن کی آیات کا سہارا لیتا ہے۔ اندرکابغض ان جیسوں کے کردار کی دیتا ہے۔ جیسا کہ شہر نیویارک میں تین شیطان، مرزا فاروق، زاھد شہباز اور توقیر شیخ۔ کمﺅنٹی سے نفرت اور انکے اندر کا بغض انکے کردار کی گوبھی دیتا ہے۔ کہنے کو تو ھماری زندگی میں بہت دوست ہوتے ہیں۔ کچھ دوست واقعی دوست ہوتے ہیں اور کچھی ضرورت کے تحت بنا لئے جاتے ہیں۔ جن لوگوں کی دوستی کسی غرض سے پاک اور حقیقت ہوتی ہے۔ وہ ہر کسی جو دوست نہیں بناتے۔ بلکہ اپنی دوستی کاشرف بخشتے ہیں۔ جن سے دل مل جائے۔ بقول شاعر۔ جو دل کواچھا لگتا ہے اسی کو دوست کہتا ہوں منافق بن کے رشتوں کی سیاست میں نہیں کرتا۔ دل ا±ن سے ملتے ہیں جن میں قدر مشترک ہو۔ گزشتہ ایک سال ھمارے ساتھ ایک خاندان کیطرح ج±ڑے رہنے ، غریب پروری کرنے والے،لوگوں کو گھر گھر کھانا پہنچانے والے ، اپنے گرم بستر چھوڑ کر یہ بستہ ہواو¿ں اور سخت سردی میں دوسروں کی ضروریات کا احساس کرنے والے ،ہمارے ٹیم ممبرز، ہمارے رضاکار قابل تحسین ہیں جنہوںبے خوف و دہشت میں کمیونٹی کے ساتھ کھڑا ہونے کو ترجیح دی۔ پیسے ،دولت اور شہرت کے بھوکے ، چھچھورے لوگ گزشتہ ایک سال میں کہیں نظر نہیں آئے۔ خوف خدا سے عاری نظر آئے۔ فرسٹریشن میں دکھائی دئیے۔ اگر نظر آئے تو مسلسل تواتر کے ساتھ خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار وہ لوگ نظر آئے جو دوسروں کے د±کھ اور درد کو اپنا سمجھتے ہیں۔ انکے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ میں کرونا کی انتہائی peak کے دنوں میں چند مخلص دوستوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ جنہوں نے ادویات سے لیکر راشن اور مالی مدد فراہم کرنے میں ہر اوّل دستہ رہے۔ میں م±نیر پاشا صاحب اور تنویر چوہدری کا ذکر ضرور کرونگا جنہوں نے دیسی گراسری ، کپڑے اور ماسک کی فراہمی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ نیویارک سٹی کی زیادہ تر مساجد ،اکنا ریلیف کی فوڈ پینٹریز اور فوڈ ڈرائیوز میں گزشتہ ایک سال سے گرم کپڑوں، ٹی شرٹس اور ماسک کی فراہم انہی کے توسط سے کررہے ہیں۔ اللہ بارک انکے مال، رزق اور کاروبار میں برکت فرمائے ، گھروں پر رحمتوں اور برکتوں کا سایہ فرمائے۔ آمین نعیم بٹ ،راجہ ساجد ،عامر رزاق اور عدیل گوندل نے کرونا کی دہشت کے دنوں میں لوگوں مالی مدد فراہم کرنے میمن بہت اہم کردار ادا کیا۔ یہ وہ ہیرے ہیں جو ضرورت پڑنے پر کمﺅنٹی کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ ضرورت مندوں کیطرف سے انکے لئے بہت دعائیں ہیں۔ دو خاموش مجاہدین کا تذکرہ نہ ہو تو بات مکمل نہیں ہوتی۔ شاہد اعجاز اور شیخ اعجاز احمد وہ ہیرو ہیں جنہوں نے COVID-19 کے دنوں میں ،ضرورتمندوں کو مفت ادویات کی فراہمی میں کوئی کسر نہ چھوڑی جو لوگ ان کو ہدف تنقید بنارہے ہیں ان کی اپنی فیملیز انکی فراہم کردہ گراسری سے مستفید ہوتی رہے ہیں۔ برانکس کمیونٹی کونسل نے لوگوں کی خدمت کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے۔ الحمد للّٰہ ویکلی دو سو لوگوں کوہمارے توسط سے ویکسین فراہم کی جارہی ہے۔ جو آئندہ ہفتے پانچ سو افراد تک پہنچ جائے گی۔ یہ میرے لئے اور برانکس کمیونٹی کے لئے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔ ابھی حال ہی میں اکنا ریلیف برانکس کے سٹوریج پر نئی چھت ڈال کردی ہے جو لوگ خدمت خلق میں پیش پیش ہوں ا±نکی نیکی کا تذکرہ نہ کرنا بہت بڑی منافقت ہے۔ ایک طرف یہ ہے کہ کل میں اپنے بال کٹوانے گیا تو وہاں بیٹھی ایک خاتون میرے پیسے اور ٹپ دیکر چلی گئی۔ میں پیسے دینے لگا تو دوکاندار نے کہا عورت کا کہنا ہے کہ یہ لوگ اللہ کے بندوں کا خیال کرتے ہیں۔ میں انکی خدمت کر نا چاہتی ہوں۔ یہی ایک ذریعہ ہے کہ اسکے پیسے میں ادا کردوں۔ دوسری طرف دو نمبرئیے مسخرے اور تماشبین ہیں جن کا کام صرف تنقید ہے جس کو نماز کا ترجمعہ یا معنی نہیں آتے ا±سے نماز کی وہ لذت نہیںملتی اور نہ ہی پتہ چلتا ہے کہ وہ اللہ سے کیا باتیں کر رہا ہے جسے دوستی کے معنی نہ آتے ہوں ا±سے دوستی کی حلاوت کا کیا معلوم،جن لوگوں نے خدمت انسانی نہ کی ہو۔ انہیں کیا پتہ انسانیت کس چیز کا نام ہے۔ خدمت انسانی سے اندر کے جانور کا پتہ چلتا ہے کہ آیا وہ زندہ ہے یا مر چکاہے جنہیں یہ نہیں معلوم لوگوں کی ضروریات کیا ہیں۔ انہیں کیا پتہ رضا کار کسے کہتے ہیں اور ان خدائی خدمت گاروں کا کیا ر±تبہ ہے، اور ا±ن سے محبت کا کیا صلہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے بندوں سے محبت کرتے ہیں اللہ بارک نے فرمایا ہے جو میرے بندوں سے محبت کرتا ہے میں ا±ن سے محبت کرتا ہوں۔ آج ہم نے اللہ کے ا±ن محبوب بندوں سے محبت بانٹنے کی کوشش کی۔ برانکس کمیونٹی کونسل ان خدائی خدمتگاروں کی ممنون و مشکور ہے جنہوں نے مشکل کی گھڑی میں ضرورتمندوں اور بے سہارا لوگوں کو مدد فراہم کی۔ شہر میں تین بدبخت جنہوں نے پاکستانی فیملیز کا سکون برباد کر رکھا ہے۔ انکے لہجے انتہائی غیر مناسب اور سوچ میں جانوروں کا عنصر پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ کچھ روز پہلے تین فرعون شرفاءکو دھمکاتے تھے۔ ا±ن میں سے ایک فاروق مرزا اللہ کی پکڑ میں آچکا ہے۔ دوسرا زاہد شہباز اور توقیر شیخ بھی انشاءاللہ مالک کائنات کی پکڑ میں آنے والے ہیں۔ انکے پیچھے ظفر میراسی ہے جس کے ماں باپ بازار خ±سن میں ڈھولکی بجایا کرتے تھے یوگ وہاں کا کلچر اور گندگی ہے جو کرونا کی دہشت میں بھی بے حیائی کی وحشت سے باز نہ آئے۔ ایسے لوگ اپنے آپ کو معززین شہر سمجھتے ہیں۔ لوگوں کی بہو بیٹیوں کی عزتیں اچھالتے ہیں۔ یہ وہ گندگی کا ڈھیر ہیں جو نیویارک کی کمیونٹی میں تعفن کا سبب ہیں۔ جب میراسی صحافی بن جائیں یا جعلی چینل کھول لیں تو جرنلزم میں طوائف الملوکی نظر آتی ہے۔ قارئین!جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ستائے جانے پر لوگوں نے ان لعنتی کرداروں کو بہت بددعائیں دی ہیں۔ فرعونی لہجہ ہو یا فرعونی طرزعمل اللہ بارک کو بالکل پسند نہیں۔ کچھ روز پہلے مرزا فاروق نے مہر ظہیر کو لبریز فرعونیت میسج کیا جس میں اس نے ظہیر مہر کو دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ تم لوگ جو میٹنگز کر رہے ہو باز آجاو¿، اسکا حصہ نہ بنو۔ میں ایک پہاڑ ہوں جو مجھ سے ٹکرائے گا پاش پاش ہو جائے گا۔ آج یہ فرعون زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ اگر یہ بستر مرگ سے زندہ واپس آگیا تو اسکی فرعونیت میں اضافہ ہوجائے گا۔ یہ زندہ بچ گیا تو لوگوں کا جینا حرام کردے گا۔ یہ ابلیس کی نسل سے ہیں ،قارئین آپ نے دیکھا ہو گا کہ آوارہ بدمعاش وسم کی نسل سے ہوتے ہیں انکا تعلق کونسے بازاروں سے ہوتا ہے۔ یہ لوگ کن کی اولادیں ہوا کرتیں ہیں۔ انکے کردار سے عیاں ہے۔ اللہ نے انکی ڈوری ڈھیلی چھوڑ رکھی ہے۔ اللہ ایسے لوگوں کو ترسا ترسا کے مارتے ہیں۔ اسے توبہ کرنی چاہئے سب سے معافی مانگنی چاہئے۔ وگرنہ انشاءاللہ شہر نیویارک کے لوگ ان دربھندوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر دم لینگے۔ شبیراحمدگل (نیویارک)
٭٭٭