ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
نیویارک اقتصادی طور پر کیپیٹل آف دی ورلڈ شمار ہوتا ہے، منہاٹن کی وال سٹریٹ جنرل سٹاکس سمیت بین الاقوامی سطح پر کرنسی کا ریٹ متعین کرتی ہے۔ اقتصادی نشیب و فراز یہیں سے ہوتے ہیں نیو یارک ملٹی لنگو¿ل، ملٹی کلچرل، ملٹی ڈائی مینشن ملٹی ایتھنسٹیز، ملٹی ریلیجن اور ملٹی کلر سوسائٹیز کا سنگم ہے۔ یہاں کا مئیر عوامی، پولیس کمشنر عوامی طبیعت ہوتا ہے۔ پولیس بھی فرینڈلی ہوتی ہے۔ نیویارک میں صفائی بہت ناپید ہے، چوہے اور بگز بہت زیادہ ہیں،نیویارک کے حشرات الارض ہمارے شرارتی بھائیوں کی طرح ڈھیٹ ہیں۔ یہاں ٹریفک بہت خراب ہے اگر آپکو دائیں بائیں جانا ہو تو کرٹسی میں کوئی آپکو راستہ نہیں دے گا،مہنگائی عروج پر ہے۔ نیویارک بہت پالش ہونے کے باوجود ابھی بھی اسلحہ اور گینگسٹرز سے پاک نہیں ہو سکا ہے تاہم باقی جگہوں کی نسبت کرائم ریٹ بہت کم ہے، اکثر لوگ اسے ٹرانزٹ لاو¿نج سمجھ کر کچھ ہی عرصہ میں اگلی منزلوں کی طرف رواں دواں ہوجاتے ہیں۔ مجھ جیسے بہت کم خوش قسمت ہیں جو گالیاں کھانے کیلئے اس شہر عظیم میں رہ جاتے ہیںتاہم گالیوں کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ عزت بھی مجھے اسی شہر میں ملی ہے ہمارے ہم وطنوں کی اکثریت یہاں اپنی روزی روٹی کمانے کے ساتھ دینی ، سماجی، قومی، ملی، ملکی خدمات میں امریکہ کے کم ازکم ہر شہر سے زیادہ مخلص پائے گئے ہیں یہاں کے مسلمانوں کا اخلاق بہت عمدہ ہے۔ وہ مغرور نہیں ہوتے، وہ مذہبی قومی دن دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی ہے تعصبات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اکثر کمیونٹی شریف اور ہمدرد ہے۔ میرے اس شہر میں ڈیرہ لگانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے یہاں کے گروسری اسٹورز، ریستوران ، بلڈنگز یا سڑکوں پر عجیب اپنائیت نظر آتی ہے۔ اپنا لباس پہن کر نکل جائیں تو کوئی گھورتا نہیں۔ اپنی زبان بولیں تو کوئی کوستا نہیں۔یہ امریکہ کا واحد شہر ہے جسکی مسجدوں، امام بارگاہوں، سکولز، مکاتب، مدارس اور مراکز میں روزانہ کی بنیاد پر جم غفیر ہوتا ہے۔ سال سے اوپر کورونا کو آئے ہوگیا ،باقی شہروں میں مراکز کھلے نہیں یہاں مساجد بندہیں نہیں ہوئی ہیں، یہاں کے لوگ اُجلے ہوئے کپڑے پہنتے ہیں، باسی کھا نا نہیں کھاتے، میلوں، ٹھیلوں پریڈوں، ڈھول، ڈھمکوں میں خوش ہوتے ہیں۔ صحافی بڑے مخلص ہیں ڈاکٹرز بہت ہمدرد ہیں۔وکیل بہت اچھے ہیں ، تاجر بڑے عظیم ہیں، معلماءذی وقار ہیں ، بلدیہ بہت ہی مہربان ہے تاہم تعلیمی معیار کم ہونے کے باعث قوت برداشت کی کچھ لوگوں میں کمی ہے ، زود رنج ہیں۔ بات بات پر جھگڑے کرتے ہیں۔ اس لئے اس شہر کی پولیس کافی مصروف ہے یہاں عیادت مریض اور جنازوں میں شرکت کا بھی رواج ہے، علماءاور بزرگوں عزت و توقیر بھی بام عروج پر ہے مگر افسوس صد افسوس کچھ کالی بھیڑیں پورے شہر کا سکون برباد کر دیتی ہیں۔ کچھ گندی مچھلیاں سارا تالاب گندا کر دیتی ہیں۔ کچھ دھوبی رنگ میں بھنگ ڈال دیتے ہیں ، کچھ مراثی شجروں میں ڈنڈی مار دیتے ہیں۔ کچھ موچی جوتوں میں بد بودار چمڑا ڈال دیتے ہیں۔ کچھ جولاہے سردی میں ٹھنڈا اور گرمی میں گرم لباس بنا دیتے ہیں۔ کچھ نوکر آقاو¿ں کے غدار بن جاتے ہیں جس کے باعث اس شہر کا سکون برباد ہوجاتا ہے۔ بازاری زبانوں کا استعمال، گالم گلوچ، افترا پردازیاں، کذب بیانیاں، اتہام بازیاں، الزام تراشیاں، جعلسازیاں ،بد نامیاں ، شکایت بازیاں،شوخیا±ں عام ہیں اور نامعلوم کتنی اخلاقی برائیوں کے باعث اس شہر کی بہار بے موسمی خزاں میں بدل کئی ہے جس کے باعث شہر کی بیوٹی ڈیمج ہوگئی ہے اور ایک طرف تو کووڈ 19 نے رونقیں اُڑا دیں ، دوسری طرف ان معاشرتی برائیوں اور بد زبانیوں نے ستیا ناس کر دیا ہے !!!!!
شیخ اشفاق اور کاظم نقوی کے آفس میں چند روز قبل کسی غرض سے گیا تو وہاں علامہ اقبال سینٹر کی انتظامیہ سر جوڑے بیٹھی تھی کہ فیک آئی ڈیز سے ایک گروہ ناموس کی گالیاں اور بے پرکی اُڑا کر کمیونٹی کا سکون برباد کیے ہے۔وہاں ملک ناصر ، چوہدری جاوید چیچی ، حاجی طاہر بھٹہ اور بخاری صاحب بھی تھے جو 2 اپریل کو ایک کنونشن کر رہے ہیں جس میں قابل اعتراض وٹس ایپ گروپس بند کرانے یا ان سنائپرز کو لگام دینے کی سبیل ہوگی جو گھروں میں دعا ئیں دینے والی ماو¿ں بہنوں کی عزتیں اُچھال رہے ہیں۔ مجھے وہاں احساس ہوا کہ یہ مسائل تو ہمیں بھی درپیش ہیں، با لکل انگریزوں کی طرح باہر ریاستوں میں بیٹھ کر کچھ شریر نیویارک میں سنگ باری کر رہے ہیں۔ یہ لوگ سماجیات و مذہبیات و قومیات سے عاری ہیں، زندگی نیں فیل ہیں۔ محل اعراب ہے نہیں، اپنے کیے کی سزا بھگت رہے ہیں ،گھروں سے ان کو جوتے پڑتے ہیں۔ اولادیں انکا کہا نہیں مانتی ہیں۔ یہ خود معاشرے سے غائب ہیںمگر شرارتوں میں پیش پیش ہیں۔ گالی گلوچ میں سبقت لینے والے ہیں۔ جھوٹ بنانے کے ماہر۔ گھروں میں اور معاشرے میں آگ لگانے والے۔ یہ ابن زیاد خصلت، شمر طبیعت، عمر سعد فطرت، حرملہ طرز ، یزید مزاج اور پیشہ ور گدا گر کب سے قصہ پارینہ بن جاتے اگر شہر کے کوتوال چوروں سے نہ مل گئے ہوتے۔ اللہ اس شہر اور شہریوں پر رحم کرے اور اسے موچی دروازہ نہ بنائے جہاں عزتیں نیلام ہوتی ہیں اور ذلتیں خریدی جاتی ہیں ،وہ بھی باہر کے سوداگروں کے ہاتھوں محلے والوں کو تو خواب غفلت کے باعث کچھ خبر ہی نہیں ہوتی۔ اس اُمید پر کالم ختم کررہا ہوں اسلئے کہ فلائٹ بھی پہنچ رہی ہے میں عراق کی زیارات پر آیا ہوں، ہوسکتا ہے نیویارکرز نیند سے بیدار ہوں اور باہر کی ریاستوں کے اپنے اپنے معاشروں کے دھتکارے ہوو¿ں اور پٹے ہواو¿ں کو اپنے شہر کا سکون برباد نہ کرنے دیں۔ اللہ کرے ایسا ہو جائے تو میری محنت وصول ہو جائیگی میں ان شاءللہ نجف، کربلا، سامراء و کاظمین میں دعا بھی کرونگا اورآپ سے د±عاو¿ں کا محتاج بھی ہوں۔فی ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍلحال اتنا ہے۔
٭٭٭