اعتدال و میانہ روی اسلامی طرززندگی!!!

0
39
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

اسلامی طرزمعیشت و اعتدال و میانہ روی اسلامی طرززندگی کا اہم پہلو معاشرت میں کھانے پینے اور خرچ کرنے کے بارے میں بھی بہترین اصول و قوانین عطا کئے گئے ہیں۔اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے کہ جس نے دینی اور دنیوی ہرمرحلے میں اپنے ماننے والوں کو بہترین اور زرین اصولوں سے نوازا ہے ۔جہاں اسلام نے ہمیں اپنے جسم و جان اپنے اہل وعیال اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا حکم دیا ہے وہاں ہمیں یہ بھی تاکید و تلقین فرمائی ہے کہ خرچ کرنے میں راہ اعتدال اور میانہ روی کو اختیار کریں ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ اے ایمان والو(اللہ کے د ئیے ہوئے پاک مال میں سے )کھاوپیواور اسراف (فضول خرچی )نہ کرو۔ایک مقام پر یوں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ “اے لوگو زمین کی ان چیزوں میں سے کھاو،جو حلال اور طیب ہیں اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کروبے شک وہ تمہاراکھلا ہوا دشمن ہے (البقرہ)۔ اسراف و فضول خرچی کا مفہوم یہ ہے کہ “خرچ کرنے میں حد شرعی سے تجاوزکیا جائے جبکہ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ “ناجائزاور حرام کاموں میں خرچ کرنااسراف و فضول خرچی کہلاتاہے “جبکہ میانہ روی کا مطلب یہ ہے کہ “ہرچیزمیں درمیانی راستہ اختیار کرنا،خواہ مال خرچ کرنا ہی کیوں نہ ہو۔اسلام ہمیں اسراف وفضول خرچی سے رکنے اور اعتدال ومیانہ روی اختیار کرنے کا حکم اورتعلیم دیتاہے۔ عقل مند آدمی ہمیشہ اپنی دولت سوچ سمجھ کرخرچ کرتاہے اپنی ضروریات پوری کرتے وقت حد سے زیادہ بڑھ جانا اسراف اور فضول خرچی کہلاتاہے یعنی انسان نمود ونمائش یا اظہار غرورو تکبریا دوسروں سے آگے نکل جانے کی دوڑمیں اپنی ناجائزضروریات یعنی لباس اور رہائش وغیرہ میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرے اور اسلامی لحاظ سے یہ طرزعمل قطعاناپسندیدہ اور قابل اجتناب عمل ہے ۔ مال خرچ کرنے سے متعلق اسلامی تعلیمات اسلام میں اسراف اور فضول خرچی منع ہے کیونکہ اسلام ایک مذہب اعتدال ہے اس میں ایک طرف بخل و کنجوسی کو ممنوع قراردیا گیا ہے تو دوسری طرف اسراف و فضول خرچی سے بھی روکا گیا ہے۔مسلمانوں کو اعتدال اور میانہ روی اپنانے کی تاکید کی گئی ہے ۔قرآن میں اسراف وتبذیر اور فضول خرچی کو شیطانی عمل اورفضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قراردیا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ “اور اسراف و بے جاخرچ کرنے سے بچو،بلاشبہ بے جاخرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑاہی ناشکرا ہے (سورہ بنی اسرائیل)خرچ کرنے کے باریمیں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ انسان اپنی ذات اور اپنے اہل وعیال کی جائزضروریات مناسب طریقے سے پوری کرے۔غریب رشتہ داروں،یتیموں،مسکینوں اور حاجت مندمسافروں پراپنا مال خرچ کرے ،اپنی دولت سے ان محروم لوگوں کا حق اداکرے جواپنی بنیادی ضرورتیں بھی پوری کرنے کے قابل نہیں ہوتے اور یہ لوگ خود داری اور شرم حیا کی وجہ سے امیرکبیراور دولت مند لوگوں سے سوال بھی نہیں کرسکتے،ایسے لوگوں کی ہمیں ہرحال میں اور ہرممکن طریقے سے مددکرنی چاہئے ۔ سورہ فرقان میں اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ بخل و کنجوسی کرتے ہیں اور نہ اسراف و فضول خرچی کرتے ہیں بلکہ (خرچ کرنے میں )میانہ رواورمعتدل ہوتے ہیں چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اوریہ لوگ(رحمان کے پسندیدہ بندے)جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اورنہ تنگی اختیار کرتے ہیں بلکہ یہ لوگ دومیانی راہ اختیارکرتے ہیں (الفرقان) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہیکہ “میانہ روی اختیار کرنے والا کبھی محتاج نہیں ہوتا “اس مختصر حدیث شریف میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناداری غریبی اور تنگ دستی جیسی خطرناک آفتوں سے بچنے کے لئے ہمیں خرچ میں “میانہ رویاختیارکرنے کی تاکید و تلقین فرمائی ہے ،اعتدال و میانہ روی کی تاکید کے معاملے میں اسلام تمام مذاہب سے ممتازومنفرد ہے اسلام ہمیں ہرعمل میں میانہ روی ارو اعتدال کی تعلیم دیتاہے البتہ حدیث مذکورہ میں خاص طور پر خرچ کرنے میں میانہ روی کی طرف متوجہ کیا گیا ہے ۔اسراف و فضول خرچی سے پرہیزکرنے والا کبھی تنگ دستی اورفقر و فاقے میں مبتلا نہیں ہوگا کیونکہ ایسا شخص اپنے حالات او اپنی آمدنی سے مطابق نہایت سوچ سمجھ کرخرچ کرے گا ونہ تونمود و نمائش میں اپنی رقم ضائع کرے گا اورنہ عیش وعشرت میں اپنی دولت برباد کریگا اور نہ فضول خرچی میں اپنی دولت اڑائیگا بلکہ جو کچھ بھی خرچ کرے گا انتہائی سوچ سمجھ کرخرچ کرے گا ۔اسی طرح مال خرچ کرنے کے متعلق ایک اور مقام پر قرآن کریم نے مومنین کو یہ ہدایت و تعلیم دی ہے کہ “نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو (یعنی حد درجہ کنجوسی کرو)اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑدو(یعنی بے تحاشاخرچ کرنے لگ جاوکیونکہ اگر ایسا کروگے توملامت کا نشان بن جاوگے اور افسوس سے ہاتھ ملتے اور عاجزبن کررہ جاوگے(سورہ بنی اسرائیل) ہمیں چاہئے کہ ہم فضول خرچی اور بے جا خرچ کرنے سے پرہیزکریں اور بخل وکنجوسی سے بھی کام نہ لیں،بلکہ اعتدال اور میانہ روی اختیار کریں ۔اگرہم اعتدال اور میانہ روی کے اس سنہری اصول کو اختیار کرلیں تو ہمارامعاشرہ بے شمار برائیوں اور مشکلات سے ازخود نجات حاصل کرلے گا ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here