ماجد جرال
جب سے آنکھ کھولی ہے ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ سمندر پار پاکستانی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں، ان کی جانب سے ملک کی خدمت کا زرمبادلہ بھجوانے کی صورت جو سلسلہ جاری ہے، پاکستانی حکومت اس کا بدلہ نہیں چکا سکتی وغیر وغیر مگر حقیقت میں جا کر دیکھیں تو تصویر بالکل ہی مختلف نظر آتی ہے۔مجھے یہ بات لکھنے پر مجبور ایک ایسے واقعے نہیں کہ جو نیویارک میں مقیم ایک خاندان کے ساتھ پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں پیش آیاجہاں ایک اوورسیز پاکستانی خاتون کو بچوں کے ہمراہ اغوا کرنے کی کوشش ناکام ہونے کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔اس واقعے کے بعد اس خاتون کے پانچ سالہ بچے کی جانب سے ایک ویڈیو پیغام سامنے آیا جس میں وہ اس واقعے کی تفصیلات بتا رہا ہے اور ساتھ ساتھ اپنے خوف کا اظہار بھی کررہا ہے جو اس واقعے کے بعد اس پر نفسیاتی طور پر اپنے اثرات چھوڑ گئے۔ کیا یہ بچہ ساری زندگی پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے کا سوچے گا یا اس کے دل سے پاکستان اور پاکستانی افراد کے بارے میں پیدا ہونے والی نفرت ختم ہوجائےگی۔امریکہ اور یورپ میں مقیم افراد کے ساتھ پاکستان میں ایسے ہزاروں واقعات پیش آچکے ہیں، ہر واقعہ آپ کو دل سوز کر جائے گا مگر ان سمندر پار پاکستانیوں کے ساتھ یہ ظلم و ستم کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔انہیں کو ہم دیار غیر میں پاکستان کے سفیر کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں، ابھی تک تو شاید یہ لوگ دل پر پتھر رکھ کر واقعی پاکستان کے مثبت تشخص کو ہی اجاگر کررہے ہیں مگر جس دن ان کے دل کی بات زبان پر آنا شروع ہوگئی اس دن سے یہ سفیر صرف اپنی بیانات سے ہی کتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں شاید اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔صرف تشدد ہی نہیں بلکہ ہزاروں ایسے مسائل موجود ہیں جن سے یہ سمندر پار پاکستانی، سفیر پاکستان اور ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کہے جانے والے برُی طرح شکار ہیں اور کوئی ایسے آثار نظر نہیں آتے کہ کب تک یہ طبقہ انہی مسائل کا شکار رہے گا یا کب ان کی آواز کو کوئی سنجیدہ ہوکر سنے گا تاکہ ان کے ساتھ درپیش مسائل کو مستقل طور پر حل کیا جاسکے۔ان کو یہ مسائل صرف اور صرف اس لیے سہنے پڑتے ہیں کیونکہ پاکستان کے ایوانوں میں ان کی حقیقی آواز موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں متعدد بار اس عزم کا اظہار کیا گیا سمندر پار پاکستانیوں کو نہ صرف پاکستان کے ایوانوں میں نمائندگی کا حق دیا جائے گا بلکہ ان کو ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت بھی ہوگی۔سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کاسٹ کرنے پر کام تو بڑی حد تک مکمل ہوچکا ہے مگر حکومتی ایوانوں میں نمائندگی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ غیر ملکی شہریت کو ترک نہ کریں۔یہ شاید سب سے بڑی رکاوٹ ان کی آواز کو ایوانوں تک پہنچانے کی ہے جب تک ان سمندر پار پاکستانیوں کو قومی ایوان میں اسی طرز پر جس تک مخصوص نشستوں پر لوگ آتے ہیں بالکل ویسے ہی ان کو بھی مخصوص نشستوں پر نہیں آنے دیا جاتا تب تک ان کے مسائل جوں کے توں ہی رہے ہیں ،یہ اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی ستم کا رونا ہرجگہ روتے ہیں مگر ازالہ بمشکل ہی ہوتا ہے اگر یہ لوگ اتنے ہی غیر ملکی شہریت رکھنے کی وجہ سے قابل اعتبار نہیں تو خدا راہ پھر انہیں پاکستان کے سفیر وغیر کے القابات سے بھی پکارنا بند کیا جائے۔
٭٭٭