مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک
ایک شخص بالوں سے محروم تھا، وجود کے کسی حصہ پر بال نہ تھے نہ سر نہ داڑھی نہ آبرو، عجیب کونی مونی شخصیت ظاہر ہے، اللہ کی مخلوق مذاق اُڑاتی، بچے پیچھا کرتے، راہ گیر سر پر تھاپ لگا کر چلے جاتے۔ بالآخر اس نے شہر چھوڑ دیا۔ باہر نکل آیا تاکہ لوگوں کے ظلم و ستم سے محفوظ رہے۔ ہاتھ اُٹھا کر عرض کرتا یا الٰہی تیرے گھر میں کس چیز کی کمی ہے۔ اپنے فضل سے مجھے بال عطاءکر دے تاکہ میں بھی نارمل زندگی گزار سکوں۔ لوگوں کے ظلم و ستم سے محفوظ رہوں، لوگوں کے ظلم و مذاق سے بچ سکوں۔ شہر سے باہر اسے ایک کوڑھی ملا۔ اس کی کہانی سن کر وہ اپنی بھول گیا۔ اچھا خاصا تھا خوبصورت وقت گزار رہا تھا وجود پر گلٹی نمودار ہوئی اور پھر کیا تھا گلٹیوں کی بھرمار ہو گئی، آخر کار گھر والوں نے ایک جذامی یعنی کوڑھی کو دیس سے نکال دیا اور میں یہاں جہاں شہر والے کوڑا کرکٹ پھینکتے ہیں میرا ٹھکانا ہو گیا، بارگاہ ایزدی میں دعا کرتا ہوں یا اللہ مجھے شفاءدے ۔ میر اجسم اپنی اصلی حالت میں واپس آجائے۔ گھومتا گھامتا ایک نابینا شخص بھی وہاں پہنچ گیا، وہ بھی مخلوق خدا کا ستایا ہوا تھا کہنے لگا کتنی خوبصورت دنیا ہے میرے کس کام کی اللہ پاک اگر مجھے آنکھیں عطاءکر دے تو اس کے خزانے میں کیا کمی ہے۔ تینوں لوگ اللہ سے گڑ گڑا کر دعا مانگ رہے تھے رحمت خدا وندی جوش میں آئی، ایک فرشتے کو انسانی شکل میں ان کی مدد کے لئے بھیج دیا کیونکہ اللہ سبب الاسباب ہے فرشتے کو سبب بنا دیا سب سے پہلے اس نے کوڑھی سے پوچھا ہاں بھائی کیا چاہتے ہو کہنے لگا خوبصورت جسم اور ایک گابھن اونٹنی فرشتے نے جسم پر ہاتھ پھیرا گلٹیاں غائب اور خوبصورت جسم نکل آیا اور ایک گھابھن داس ماہی اونٹنی دےدی۔ پھر اس نے گنجے سے پوچھا بھئی تمہاری کیا خواہش ہے اس نے کہا خوبصورت بال اور ایک گھابن گائے، فرشتے نے سر پر ہاتھ پھیرا بال نکل آئے داڑھی نکل آئی اس کی خواہش پر دس ماہ کی گابھن گائے بھی دےدی۔ پھر وہ نابینا کی طرف متوجہ ہوا ہاں بھئی تمہاری کیا خواہش ہے اس نے کہا آنکھیں اور بکری اسے بھی دیدی گئی۔ مدت بعد تینوں امیر کبیر ہو گئے اللہ نے اسی فرشتے کو بھیج کر آزمایا۔ کوڑھی کے پاس آیا اللہ کے نام پر ایک اونٹ مانگا اس نے کہا کہ میں تو مقروض بہت ہوں۔ فرشتے نے کہا ایک کوڑھی تھے تم اللہ پاک نے نوازا اس نے کہا کہ میں جدی پُشتی امیر کبیر ہوں اور میرا جسم ہمیشہ سے ایسا ہی ہے اچھا پھر ویسا ہی ہو جائے جیسے تم تھے۔ لمحوں کی بات تھی وہ کوڑھ میں تبدیل ہو گیا۔ پھر وہ گنجے کے پاس گیا اللہ کے نام پر گائے مانگی اس نے بھی وہی کیا جو کوڑھی نے کہا تھا چنانچہ سب کچھ جاتا رہا پھر گنجے کا گنجا۔ پھر وہ نابینا کے پاس آیا اس نے کہا مسافر ہوں زادہ راہ ختم ہو گیا ہے ،اللہ کے نام پر ایک بکرے دے دو اس کا ماتھا ٹیکا ،اس نے سوچا کہیں وہی بکری والا تو نہیں ہے اس کو ریوڑ میں لے گیا اور کہا میں نابینا تھا ،اللہ نے نہ صرف آنکھیں دیں بلکہ مال بھی دیا ،ایک بکری سے تمہارا کیا بنے گا، اللہ کے نام پر جتنی بکریاں چاہو لے لو، اس نے کہا میں واقعی وہی ہوں جو کبھی انعام دے دگیا تھا آج آزمائش کیلئے بھیجا گیا ہوں مبارک ہو تم کامیاب ہو گئے،دنیا و دین دونوں سلامت ہیں۔
٭٭٭