اعتمادی ووٹ یا جنرلوں کا ریفرنڈم تھا!!!

0
419

Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA

پاکستان میں عمران خان کی ضمنی انتخابات اور سینٹ میں شکست فاش کے بعد افراتفری میں مارچ چھ کو یکطرفہ اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کردیا جس میں ان ممبران سے بھی ووٹ لیا گیاجن کو چند روز پہلے غدار اور بکاﺅ مال قرار دیا گیا تھاجو آج حرام سے حلال ہوگئے تھے۔چنانچہ سبزور طاقت اور بندوق دھمکیوں اور خوف زدگیوں کے بعد اعتماد کا ووٹ لیا گیا جو اعتمادی ووٹ یا جنرلوں کا ریفرنڈم تھا جس کا آئین اجازت نہیں دیتا ہے کہ ایک وزیراعظم جو نیا منتخب یا برطرفی سے بحال نہ ہوا ہو۔وہ اعتماد کا ووٹ لے۔اعتماد کا ووٹ صرف ایک دفعہ ہوتا ہے باقی عدم اعتماد کا ووٹ کہلاتا ہے جس میں پارلیمنٹ میں ریزویشن منظور ہوتی ہے۔جس کے بعد وزیراعظم کو دوبارہ ووٹ لینا پڑتا ہے لہٰذا موجودہ اعتمادی ووٹ کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔آئین پاکستان کے بارے میں موجودہ جاہل حکمرانوں نے پروپیگنڈا کیا ہے کہ اعتمادی ووٹ کے بعد چھ ماہ تک عدم اعتماد ووٹ نہیں لایا جاسکتا ہے۔یا پھر وزیراعظم ریفرنڈم کرا سکتا ہے جوکہ نہایت جاہلانہ اطلاعات میں جس کا ذکر سابقہ منسوخ شدہ آرٹیکل96میں تھا جو جنرلوں کے دور موجود تھا جسکو منسوخ کر دیا گیا۔اب وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ کسی بھی وقت لایا جاسکتا ہے جبکہ ریفرنڈم کا آئین میں کوئی ذکر تک نہیں ہے مگر جاہل طبقہ منسوخ شدہ آرٹیکل کے نام پر پروپیگنڈہ کر رہا ہے۔تاہم پاکستانی سینٹ کا اسلام آباد کی نشست پر پہلا انتخاب تھا کہ جس میں سابقہ یونین کونسل کے چیئرمین اسپیکر اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور مدمقابل بین الاقوامی ساہوکاری اور سامراجی طاقتوں کے گماشتہ حفیظ شیخ کے درمیان ہوا جس میں باضمیر قومی اسمبلی کے ممبران نے ایک محب وطن پاکستانی یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر منتخب کیا جس کے بعد حکمران ٹولہ میں کھلبلی مچ گئی جنہوں نے اپنے باضمیر باغی ممبران کی پکڑم دھکڑم شروع کردی۔پندرہ باغیوں کے خلاف گالی گلوچ اور زہر اُگلا گیا۔الیکشن کمیشن کو برُا بھلا کہا گیا ہے انہوں نے خفیہ انتخاب کیوں کرایاجس میں ہمارے غلام اراکین باغی ہو گئے ہیں۔جن سے آج پھر تھوک کر چاٹتے ہوئے اعتمادی ووٹ لیا گیا جو ایک سیاستدان کے لیے شرم کا مقام ہے۔
مزیدبرآں سینٹ کے100ممبران میں سے اپوزیشن53نشستیں حاصل کرچکی ہے جبکہ حکمران ٹولے کو47نشستیں ملی ہیں جس سے معلوم ہو رہا ہے کہ بارہ مارچ کو سینٹ کے چیئرمین کا انتخاب ہوگاجو شاید پھر بلوچستان کا غدار ٹولے کا رکن موجودہ چیئرمین سنجرانی اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان ہوگاجس میں پچھلی دفعہ کی طرح پھر اپوزیشن کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جاسکتا ہے۔جس طرح چند سال پہلے اپوزیشن کے64ممبران کے چودہ ممبران کو ڈرا دھمکا کر ووٹ لے کر پاپ جیسی پارٹی کے رکن سنجرانی کو چیئرمین بنایا گیا تھا۔جس کا اب وقت بتائے گا کہ حلال اور حرام کیا کیا ہوگا۔بہرلیکن مذکورہ بالابحث کا مطلب اور مقصد عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کسی بھی وقت آسکتا ہے۔جس کا آغاز پنجاب کی وزارت اعلیٰ۔قومی اسمبلی کے اسپیکر سے ہوگا۔اور عمران خان کے خاتمے پر ہوگا جس میں26مارچ کی لانگ مارچ بھی شامل ہے کہ وہ کیسے اور کس طرح کی ہوگی۔چونکہ موجودہ حکومت عوام پر قہر بن کر نازل ہوئی ہے۔جس کی نالائقیوں،نااہلیوں ہٹ دھرمیوں نے دھوم مچا رکھی ہے۔جس سے عوام مہنگائی بے روزگاری بھوک ننگ کے شکار ہو کر نڈھال ہو رہی ہے۔جس کا عوام نے ضمنی انتخابات اور سٹیٹ کے انتخاب میں اظہار کیا ہے کے حکمران ٹولہ بری طرح ہے جس میں ایک بھی سیٹ نہیں طے پائے ہیں۔اس لیے موجودہ اعتمادی ووٹ کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے۔جو سابقہ جنرلوں ضیاءاور مشرف کے ریفرنڈموں سے کم نہیں ہے۔جس سے لگتا ہے کے موجودہ حکمرانوں کا جانے کا وقت آپہنچا ہے جو کہ سیانی بلی کھمبے نوچ رہی ہے۔جس کے لیے انہوں نے اپنی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانے کے لیے اعتمادی ووٹ کا سہارا لیا ہے جو انہیں بچا نہیں پائے گا۔خاص طور پر جب ملک میں کشیدگیوں میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔جس کی زد میں موجودہ عمران خان اور بزور طاقت لانے والی اسٹیبلشمنٹ آچکی ہے کہ آج پھر پاکستانی موجودہ حالات کا ذمہ دار موجودہ اشرافیہ کو قرار دے رہا ہے۔جو حقیقت یہ ہے کہ آج عمران خان جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کا آئے دن عمران خان سے میل ملاپ اور تصویر کشی سے عوام یہ سمجھ رہے ہیں کے موجودہ حالات کے ذمہ دار یہ تینوں حضرات ہیںجنہوں نے عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ایک منتخب ٹولہ حکمران بنا رکھا ہے جس نے ملک میں پاکستان کو مسائلستان بنا دیا ہے جس سے نجات حاصل کرنا ایک خونی جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے جو ملک کے لئے اچھا سائن ہے ،قصہ مختصر پاکستان ایسے حالات میں مبتلا ہوچکا ہے کہ جس کو بچانا ایک معجزہ ہوگا جس کے آج کے حالات1971جیسے ہوچکے ہیں۔جس پر ایسے حکمران مسلط ہیں جو پاکستان کو کسی خوف ناک خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں جن کا ہر قدم استحکام کی بجائے انتقام کی طرف ہے جو پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here