مہمان کالم:ہارون الرشید
سیدہ عائشہ صدیقہ نے ،صحرا کے آسمان پہ نگاہ کی اور پوچھا : یا رسول اللہ ایسا بھی کوئی ہوگا ، جس کی نیکیاں ان ستاروں کے برابر ہوں۔ فرمایا: ہاں ، ابوبکرؓ !وہ سب معتبر اور معزز تھے،شاعر نے کہا تھا کہ کوئی پھول بن گیا ہے ، کوئی چاند ، کوئی تارہ ابوبکرؓ کی بات ہی دوسری تھی۔ ابد الآباد تک ان پہ رشک کیا جائے گا۔پیغمبر ان عظام کے سوا‘ ان کے سرخیل ‘اللہ کی آخری کتاب میں جن کے باب میں لکھا ہے : اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔ غارِ ثور میںوہ دو میں سے دوسرے تھے اور یہ بات بھی کتاب میں لکھی ہے۔ اس کتاب میں ، جس میں کوئی شک و شبہ ہو سکتاہے اور نہ جس میں تحریف ممکن ہے ، جس کی حفاظت کا مالک نے خود ذمہ لیا۔ نزولِ رحمتِ پروردگار سے اوّل بھی، نبوت کا نور عطا ہونے سے پہلے بھی جنابِ ابوبکرؓ آپ کے دوست تھے۔ روایتوں میں لکھا ہے کہ تب بھی آپ انؓ کے ہاں تشریف لے جایا کرتے۔ لکھا ہے کہ تب بھی وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے۔عہدِ جاہلیت میںبھی ابوبکرؓ دوسروں جیسے نہیں تھے۔ مسافروں کو پناہ دیتے ، مظلوموں کی مدد کرتے اور محتاج کی دستگیری۔ اپنے باطن اور اپنی روح میں ابنِ ابی کہافہ تب بھی مسلمان تھے۔ تب بھی صراطِ مستقیم پر۔ اس لیے قبولِ اسلام میں ایک ذرا سا تامل بھی آپ کو ہرگز نہ ہوا۔ بعد کے برسوں میں، خدائے واحد پر ایمان کے سبب جب وہ ستائے گئے ، آزردگی میں مکّہ سے باہر نکلے ،تو کسی نے ان کا راستہ روکا اور یہ کہا : اے محتاجوں اور مفلسوں کی دستگیری کرنے والے تو اس شہر سے کیسے جا سکتاہے۔ کہا تو یہی مگر اس کے لہجے نے یہ بھی کہا : تیرے بعد اس شہر میں کیا باقی بچے گا۔سننِ ترمذی میں لکھا ہے :سرکار نے ارشاد فرمایا: ہر ایک کا احسان میں نے اتار دیا، سوائے ابوبکرؓ کے۔ خاموش ،ہمیشہ غور و فکر میں غلطاں ، ہمیشہ افتادگانِ خاک کی سرپرستی اورہمیشہ صداقت کے متلاشی۔اللہ اور اس کے سچے رسول کی اطاعت کے ہمیشہ منتظر۔خیال کا رہوار پرواز کرتاہے اور ہم انہیںمکہ مکرمہ میں لو سے بھری ہوئی ایک گلی میں پاتے ہیں۔ قدرے تیزی سے چلتے ہوئے ، جو انؓ کا شعار نہ تھا۔ کچھ ہی دیر پہلے انہیں مطلع کیا گیا کہ اسلام کے بدترین دشمنوں میں سے ایک ، امیّہ اپنے غلام کو کوڑوں سے پٹوارہا ہے۔ اس غلام کا نام بلالؓ تھا۔ ابد الآباد تک جو روشنی کا لہکتا ہوا استعارہ رہے گا۔ تیرہ سو برس کے بعد فاتح عالم سکندرِ اعظم سے جس کا موازنہ کرتے ہوئے امّتی اقبالؒکو یہ کہنا تھا ع رومی فنا ہوا ، حبشی کو دوام ہے بلال کسی جرم کے مرتکب نہیں تھے۔وہ سادہ اطوار ، نجیب، محنتی اور فرمانبردار تھے۔ اگرچہ اللہ پر وہ ایمان لے آئے تھے۔ اگرچہ امیّہ کو یہ بات سخت ناپسند تھی لیکن ٹھیک اس وقت کوئی خطا سرزد نہ ہوئی تھی کہ آقا مشتعل ہوتا۔ اس لمحے تو عمار معتوب تھے ، اللہ اور اس کے آخری پیغمبر پر ایمان لانے والے ایک اور غلام۔ عمار پر کوڑے برساتے برساتے عرب سردار تھک گئے توانہوں نے جواں سال سخت جان بلالؓکو طلب کیا۔ غلام سے کہا گیا کہ یہ لازمی فریضہ اب وہ انجام دیں۔ قریش کے اکابر غضب کا شکار تھے کہ عمار ان کی بات کیوں نہیں مانتا۔ محمد سے منحرف کیوں نہیں ہو جاتا۔ بلال کے ہاتھ میں انہوں نے کوڑا تھما دیا لیکن پھر ایک عجب واقعہ ہوا۔ ایک بھی لفظ کہے بغیر بلال نے کوڑا نیچے گرا دیا۔جب اس نے محمد اور ان کے رب کی اطاعت کر لی تو امیّہ کا غلام وہ کہاں رہا تھا۔ عرب سردار چیخ اٹھے :ایک غلام انکار کیسے کر سکتا ہے لیکن وہ کرچکے تھے اوردائمی طور پراپنے باطن میں غلام کی تقدیر ایک موڑ مڑ گئی تھی ،ایک روشن راستے پر ، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ عمار کو بھول کر اب وہ بلالؓ کے درپے تھے۔ بے رحمی سے انہوں نے اس کی پیٹھ پر کوڑے برسائے۔ اس پر کسی کو کیا تعجب ہوتا۔ صدیوں سے غلاموں کے ساتھ یہی ہوتا آیا تھا۔چاہے یا نہ چاہے، آقا کا دین ہی غلام کا دین ہوتا ہے۔ یہ کیسے غلام تھے ، پیروی سے جنہوں نے انکار کر دیا تھا۔ گویا وہ آزاد تھے۔ آزاد وہ کیسے ہو گئے ؟ ان کی قیمت چکائی گئی تھی۔ جس کی قیمت چکا دی جائے ، اس کی مرضی کیا اور منشا کیا۔ وہ تو گویا اس پورے نظام کو ادھیڑنے پر تلے تھے ، جو زمانوں سے چلا آتا تھا۔ یہ بغاوت گوارا کر لی گئی تواس کا مطلب یہ ہوگا کہ جمع جڑا یہ نظام پرزے پرزے ہو کر بکھر جائے۔ نہ کوئی آقا رہے ، نہ کوئی اطاعت گزار۔ کوئی حکم دینے والا اور نہ کوئی بجا لانے والا،نہ کوئی چھت باقی رہے نہ کوئی فرش۔ یہ کیسے ممکن تھا ؟ ان مجبوروں او رمحتاجوں کو یہ اختیار کس نے دیا تھا ؟ تعجب کی بات یہ تھی کہ برستے کوڑوں کے بیچ، درماندگی، التجا اور فریاد کی بجائے بلالؓ ”’احد ، احد“ پکارتے رہے۔ پکارتے رہے، حتیٰ کہ ان کی سانسیں ٹوٹنے لگیں۔ آتشِ انتقام میں جلتے امیّہ کو اس پر ملال ہوا کہ غلامؓ مرنے والا ہے لیکن پھر کسی نے ٹٹول کر دیکھا او رکہا کہ ابھی وہ زندہ ہے ، ابھی وہ سانس لے رہا ہے۔ اتنے میں ابو بکرؓ آپہنچے اور ابو بکرؓ کا آپہنچنا ایک عام سی بات نہیں تھی۔ ہر کہیں وہ قدم نہ رکھتے تھے۔ بے سبب وہ کہیں نہ جاتے تھے۔ ہمیشہ کے دھیمے لہجے میں ابوبکرؓ نے انہیں مطلع کیا کہ وہ مرتے ہوئے بلالؓ کے خریدار ہیں۔ چالاک امیّہ نے قیمت لگائی اور بہت زیادہ۔ قرینہ مکّہ میں یہ تھا کہ ایسے میں بھاﺅ تاﺅ کیا جاتا۔بعض اوقات اتنی دیر تک کہ ماتھے سے پسینہ پھوٹنے لگتا۔ صرف عامیوں کا نہیں ، شرفا کا طریق بھی یہی تھا۔ آج مگر ابو بکرؓ نے کچھ بھی نہ کہا اور سکّے گن دیے۔ چودہ سو برس کے بعد ایک مغربی شاعر نے لکھا : امیّہ خوش تھا کہ کئی گنا زیادہ قیمت اس نے وصول کر لی۔ بلالؓ کے رستے زخموں پر دل گرفتہ ہونے کے باوجود ابوبکرؓ اپنے دل میں شاد تھے کہ اپنے اور بلالؓ کے لیے کیسی بڑی نعمت ، کتنی ارزاں انہوں نے خرید لی۔ چند بے معنی سکّوں کے عوض ، جو خال خال، کبھی کبھار ہی کسی اعلیٰ مقصد پہ صرف ہوتے ہیں۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے ،صحرا کے آسمان پہ نگاہ کی اور پوچھا : یا رسول اللہ ایسا بھی کوئی ہوگا ، جس کی نیکیاں ان ستاروں کے برابر ہوں۔ فرمایا: ہاں ، ابوبکرؓ !وہ سب معتبر اور معزز تھے۔شاعر نے کہا تھا ع کوئی پھول بن گیا ہے ، کوئی چاند ، کوئی تارہ !