بلوچستان کے وسائل پر قانون سازی ضروری ہے

0
260
پیر مکرم الحق

پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com

بلوچستان کے مسائل میں سر فہرست دو بڑے معاملات ہیں، بلوچستان کی معاشی بدحالی اور گمشدہ افراد، بدحالی کی بڑی وجہ بے شمار وسائل ہونے کے باوجود وفاقی حکومت کی طرف سے غیر منصفانہ معاشی تقسیم ہے جس کو کم آبادی ہونے کا بہانہ بنا کر بنیاد بنایا جا رہا ہے، بلوچستان کی عجیب صورتحال ہے کہ اراضی زیادہ ہے لیکن آبادی کے لحاظ سے وہ حیدر آباد ضلع کے برابر نہیں تو تھوڑا سا زیادہ ہوگا یعنی ایک اندازہ کے مطابق بلوچستان کی کُل آبادی ایک کروڑپچیس لاکھ ہوگی جو کل پاکستان کی آبادی کا پانچ فیصد بنتا ہے جبکہ بلوچستان کی کل اراضی (زمین) ایک لاکھ چونتیس ہزار پچاس سکوئیر پر مشتمل ہے جو کہ پاکستان کی کُل اراضی کا چوالیس فیصد بنتا ہے حال ہی میں بلوچستان میں سیندرک ضلع چاغی کے علاقہ سے ملنے والے سونے کے ذخائر کا تخمینہ تقریباًپچاس ارب ڈالر کے برابر لگایا گیا ہے ایک وفاقی وزیر نے اس رقم سے پاکستان کا بیرون ملک قرضہ ادا کرنے کی بات کی ہے جسے بلوچستان کے نمائندگان نے کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت بلوچستان کی مالی اعانت میں سب سے پیچھے رہتے ہوئے کس طرح بلوچستان کے ذخائر سے اپنے قرضہ جات ادا کرنے کی بات کرتی ہے جبکہ بلوچستان کی نوے فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے رہتی ہے۔
بلوچستان میں غیر ملکی ادارے گہری دلچسپی لیتے رہے ہیں اور بلوچوں پر فوج کشی سے پیدا ہونے والی بے چینی کا سہارا لے کر بلوچستان کی آزادی کی باتیں کر کے بلوچوں کو پاکستان کےخلاف اُکسا رہی ہے جبکہ بلوچستان کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ پاکستان کےساتھ رہیں کیونکہ عظیم بلوچستان کا تصور ایران، ترکی اور عراقی بلوچوں کیلئے ایک خوشخبری ہو سکتی ہے جو کہ تعداد میں پاکستانی بلوچوں سے کہیں زیادہ ہیں، پاکستان کے بلوچوں کی تعداد دنیا بھر میں آباد بلوچوں کی تعداد کی ایک تہائی 1/3 ہے اور یہ لوگ پہلے سے ہی ایران، عراق اور ترکی کی حکومتوں سے حالت جنگ میں ہیں، بیرونی طاقتوں کو بلوچ تحریک سے کوئی ہمدردی نہیں ،ان کی بلوچستان پراور بلوچستان کے قدرتی وسائل پر نظریں ہے اور دوسرا مقصد پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جو کہ ایٹمی قوت ہے ، اس کو کمزور کرنا ہے۔
لیکن اس بیرونی مداخلت کو روکنے کی پُرخلوص کوشش کی پہلی سیڑھی بلوچستان کی سوا کروڑ آبادی کوجیتنے کی بنیادی سہولیات کی فراہمی ہے، پانی، بجلی اور گیس کو بلوچستان کے ہر کونے ہر گاﺅں و شہر میں پہنچانا ہوگا۔ سڑکوں کا جال بچھا کر بلوچستان کے مختلف علاقوں کو قریب تر کرنا ہوگا۔
پھر یہ سوال اٹھے گا کہ رقم کہاں سے آئے گی تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ گوادر پورٹ اور سینڈک پروجیکٹ کی تمام آمدنی پر دس پندرہ فیصد بلوچستان ترقی ٹیکس آرڈر کر کے ایک ماہرین کی کمیٹی کے ذریعے ایک تیز رفتار ترقیاتی کام کا آغاز کیا جائے اس کام کو قانونی تحفظ دینے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر اسمبلی میں قانون سازی کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اگر پاکستان کو بچانا ہے تو بلوچستان کو بیرونی طاقتوں کی سازشوں سے بچانا نہایت ضروری ہوگا۔ اس کے علاوہ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ملک کے مختلف حصوں سے خصوصاً بلوچستان اور سندھ سے ایجنسیوں کی اغواءکی وارداتوں کو سختی سے نمٹا جانا چاہئے، اس ناعاقبیت اندیشی حرکت سے پاکستان کو کمزور کیا جا رہاہے ۔قانون کی حکمرانی اور آئین کا احترام تمام قومی اداروں پر لازم ہونا چاہئے غیر قانونی احکامات کی بجاءآوری قابل سزا جرم ہونی چاہئے۔ کوئی بڑے سے بڑا افسر کسی کو اغواءکرنے کا حکم دے بھی تو اس پر عمل جرم ہونا چاہئے۔ عدالتی حکم کے بغیر کوئی گرفتاری ناجائز ہے مہذب معاشرے اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔ فوج کو بھی بحیثیت ایک قومی ادارے کے اپنے ماتحت اداروں پر سختی سے قانونی گرفتاریوں کے عمل پر عملدرآمد کروانا چاہئے۔ غیر قانونی چارہ جوئیوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اب پرانا زمانہ ختم ہو گیا ہے کہ ایجنسیاں اپنی من مانی کرتی رہیں، ایسی حرکتیں پاکستان جو کہ دشمنوں سے گھرا ہوا ہے اسے کمزور کرنے کے زمرے میں آتی ہیں۔ بلوچوں کا دل جیتنے کیلئے انہیں اپنائیت کا احساس دلانا ہوگا۔ برطانوی راج کے نفسیاتی ماہرین بھی اسی خیال سے متفق تھے کہ بلوچوں کو ہراساں اور ظلم و جبر سے جیتا نہیں جا سکتا، بلوچوں کے دل ان کو عزت دے کر جیتے جا سکتے ہیں۔
بلوچستان کے ذرائع پر اندرون بلوچستان اداروں میں پچیس فیصد بلوچوں، بروہیوں اور پختونوں کو ملازمت کا کوٹہ ملنا چاہیے۔ پنجاب، سندھ اور پختون کو بعد میں ملازمت ملنی چاہئے ، اس سارے معاملے کی نگرانی کی سربراہی ریٹائرڈ جنرل عبدالقادر بلوچ کے تحت ایک چار رکنی کمیٹی کے سپرد کرنی چاہئے جس میں اختر مینگل کے علاوہ ایک تحریک انصاف کا بلوچ رکن اور ایک پی پی پی کا بلوچ رکن ہونا چاہئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here