پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے نڈر سینیٹر عثمان کاکڑ کی گذشتہ دنوں اچانک مشکوک حالات میں وفات کے پورے پاکستان کو چونکا دیا۔ مرنا تو ہر بشر نے ہے ، موت تو برحق ، ہر کسی کو آنی ہے لیکن جب ایک چنگا بھلا صحت مند آدمی سر پر چوٹ لگنے سے فوت ہو جائے اور سرکاری ڈاکٹر پوسٹ مارٹم میں اسے برین ہیمبرج کہہ کر طبعی موت قرار دے دیں لیکن خاندان کے افراد اور وارثین ان کی موت کو قتل قرار دے دیں تو یہ واقعی ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ انہیں اپنی خواب گاہ میں خون میں لت پت پایا گیا جب گھر کے ملازمین غائب تھے۔ سرکاری ڈاکٹروں کی نظر میں ان پر کسی دماغی مرض کی وجہ سے دماغ کی رگیں پھٹ جانے کی وجہ سے وہ فرش پر گرے اور ان کی موت واقع ہو گئی۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ دماغ پر پیچھے سے چوٹ لگنے سے ان کے دماغ کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ اب سینیٹ میں حزب مخالف کے اراکین نے مطالبہ کر دیا ہے کہ عثمان کاکڑ کی ناگہانی موت کی عدالتی کمیشن سے تحقیقات کروائی جائیں اور وزیر داخلہ نے انہیں یہ تسلی دلائی ہے کہ ان کا مطالبہ حکومت تسلیم کر چکی ہے لیکن اگر شیخ رشید یہ کہہ بھی دیں تو اس بات پر آنکھیں بند کرکے یقین نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل حالیہ دنوں میں عثمان کاکڑ کی تقاریر میں طاقتور حلقوں کیخلاف زبان میں تلخی بڑھتی گئی تھی اور ان کی ہمدردیاں پشتون تحفظ موومینٹ کے ساتھ بھی بڑھتی جا رہی تھیں، اسی لئے عثمان کاکڑ اعلیٰ عہدیداروں کیلئے ناقابل برداشت ہو گئے اور ان کی مشکوک موت نے پختون تحریک کو ایک ہیرو دے دیا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ افغانستان کے صدر اور وزیر خارجہ نے جس تفصیل سے اپنا تعزیتی بیان نشر کیا جس کی بعد میں دونوں ممالک پاکستان اور افغانستان میں باقاعدہ اشاعت بھی ہوئی وہ جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے ولی خان کے بعد کسی پشتون سیاسی رہنما کیلئے بڑا مفصل اور دکھ کے اظہار سے بھرپور بیان تھا۔ انہوں نے عثمان کاکڑ کو پشتونوں کا ہیرو اور نہایت اہم رہنما قرار دیدیا۔ سیاسی رہنماؤں کا سازشوں کے ذریعہ قتل پاکستان میں کوئی نئی روایت نہیں ۔ بانیٔ پاکستان کو بھی جن حالات میں مرنے دیا گیا وہ اب بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان کے بعد لیاقت علی خان پھر ذوالفقار علی بھٹو، فاطمہ جناح کا قتل بھی پراسرار تھا اور پھر بینظیر بھٹو کے بیہمانہ قتل کے گرد بھی اعلیٰ پیمانے کی سازشیں تھیں۔ بڑے قائدین کے قتل تو پہلے ہی ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ تھے لیکن اب مخالف سینیٹر اور ممبر قومی اسمبلی کی تلخ تقاریرسننے کی برداشت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر منتخب ممبران پارلیمنٹ میں آکر اپنی آواز اٹھا بھی نہیں سکتے تو پھر بند کر دیں یہ جمہوریت کا تماشہ۔ بلا لیں وردی والوں کو آکر براہِ راست اقتدار کی باگ دوڑ سنبھال لیں اور عوام کے غیض و غضب کا سامنا کریں۔ ورنہ کل تک جو نعرہ پشتون تحفظ محاذ کا تھا وہ سارے پاکستان میں گونج پڑے گا کہ یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے۔ کس کس کو خاموش کرو گے جب یہ نعرہ تمام پشتونوں، بلوچوں ، سندھیوں اور پنجابیوں کی زبانوں پر عام ہو گا تو کتنوں کی زبانوں کو خاموش کرواؤ گے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ 21 جولائی 1961ء میں مسلم باغ قلعہ سیف اﷲبلوچستان میں پیدا ہوئے۔ کوئٹہ کے لاء کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا جھکاؤ زمانہ طالب علمی سے ہی پشتون قوم پرستی کی طرف تھا۔ اسی لئے پڑھائی کے دوران ہی پشتون اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے انہیں اپنا یونٹ انچارج مقرر کر دیا تھا۔ 1996ء میں عثمان کاکڑ نے پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی میں باقاعدہ شمولیت کر لی تھی ، 2015ء میں ان کی پارٹی نے انہیں سینیٹ کا ٹکٹ دیا اور اسی طرح وہ سینیٹ کی سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مارچ 2021ء تک وہ سینیٹر ہی رہے انہوں نے طاقتور حلقوں کیخالف کھل کر بات کی ، لگی لپٹی تقاریر نہیں کی ، بلکہ بڑے دھڑلے سے اپنا مدعا بیان کیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ PTM میں شامل ہو جائیں گے ، طاقتور حلقوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی اوران کو انہیں کے گھر میں ہتھوڑے کا وار کرکے موت کی نیند سلا دیا گیا۔ ان کے گھر والوں نے تصدیق کر دی ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کئے گئے انکشافات سے ثابت ہوا ہے کہ ان کے جسم پر تشدد کے نشانات پائے گئے ہیں اور سر کی پشت پر گہرا زخم بھی پایا گیا جس میں سے کافی خون قالون کو سرخ کر گیا۔ آج سرخ پرچم اٹھانے والا اپنے ہی خون کی سرخی میں رنگ گیا۔