پاکستان اور سعودی عرب حالیہ اختلافات!!!

0
159
ماجد جرال
ماجد جرال

 

ماجد جرال۔

پاکستان اور چین کے تعلقات کو ہمیشہ بیان کرنے کے لیے کبھی ہمالیہ کی چوٹیوں سے بلند تو کبھی شہد سے میٹھی ہونے کی مثالیں دی جاتی رہی، مگر سعودی عرب پاکستان کا وہ دوست اور بھائی ملک ہے جس پر اعتبار کی انتہا یہ تھی کہ کبھی اس رشتے کو بیان کرنے کے لیے کسی مثال کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ماضی میں شاید ہی کوئی بڑا تنازعہ سننے میں ملے۔ پاکستان نے اگر سعودی عرب کی ہاں میں ہاں ملائی تو سعودی عرب نے بھی کبھی پاکستان کو مایوس نہیں کیا تھا۔ مختصر اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی سعودی عرب کوواقعی اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے تو یہ بطور محاورہ نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی بات تھی۔ یوں لگتا ہے جیسے عالمی بین الاقوامی تعلقات میں ہونے والی تبدیلیوں نے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔آپ اگر عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھیں تو اب دفاعی تعلقات کے ساتھ ساتھ معاشی اور اقتصادی تعلقات کو قائم کرنے یا بڑھانے کے لئے بڑے بڑے سمجھوتے کئے جا رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپ دفاعی،معاشی اور اقتصادی تعلقات میں ایک دوسرے کے دست راست تھے، مگر آج دیکھا جائے تینوں کی اپنی اپنی سمت ہے۔ بھارت جو کبھی روس اور امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دینے کے لیے صبح و شام سر گرم رہتا تھا، آج کل اپنی توجہ کا مرکز عرب ممالک کو بنائے ہوئے ہے، چین کی تو بات ہی الگ ہے جس نے کبھی کسی ایک ملک پر بھروسہ ہی نہیں کیا، صومالیہ سے لے کر امریکہ تک اپنی منڈی کو بڑھانے کے لیے تگ و دو میں مصروف ہے۔میں دوبارہ کہنا چاہوں گا کہ شاید عالمی سطح پر ہونے والی بین الاقوامی تعلقات میں تبدیلیوں نے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ کیا پاکستان عالمی سطح پر ہونے والی ان تبدیلیوں پر نظر نہیں رکھتا مگر شاید یہ کہنا کچھ غیر مناسب نہ ہو کہ پاکستان ان تبدیلیوں کو سمجھنے میں کسی سطح پر کنفیوژن کا شکار ہے۔ اسی کنفیوژن کا اظہار چند ماہ قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک ٹی وی شو میں بات کرتے ہوئے کیا، جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاpakistan wil with or without move forwardاگرچہ انہوں نے یہاں پر سعودی عرب کا نام نہیں لیا تھا لیکن یہ واضح طور پر سعودی عرب کے لیے ہی پیغام تھا۔ وزیر خارجہ کی جانب سے یہ پیغام اس وقت سامنے آیا جب پاکستان سعودی عرب سے تین ارب ڈالر کیش کی صورت میں وصول کرچکا تھا اور ادھار پر تیل کا معاملہ بھی طے پا چکا تھا۔اگر یہ کہا جائے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے اس بیان نے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں اختلافات کی لکیر کو خلیج میں بدلا تو غلط نہ ہوگا۔ وزیر خارجہ کی جانب سے بعد میں وضاحت تو کی گئی لیکن اتنی کمزور کے جس کو کسی بھی سطح پر قبول نہ کیا گیا۔ علاوہ ازیں اس بیان کے فوری بعد سعودی عرب کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنے بیان کو واپس لیں جو پاکستان کی جانب سے مسترد کیا گیا۔اس بیان کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کے حوالے سے متعدد افوائیں اڑائی گئی جو تاحال افوائیں ہی ہیں اور خدا کرے کے افوائیں ہی رہیں، خصوصا سعودی عرب اور یو اے ای میں مقیم پاکستانی ورکرز کے لیے مشکلات میں اضافہ ہونے سے متعلق افوائیں شامل تھیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی قربت کو بڑا دھچکا اس وقت لگا جب سعودی عرب کا بھارت کے آرمی چیف نے دورہ کیا، جو کہ تاریخ میں سرکاری سطح پر بھارتی آرمی چیف کا پہلا دورہ تھا۔ بھارت اس وقت پاکستان اور سعودی عرب کے مابین اختلافات کا بھرپور فائدہ اٹھا کر سعودی عرب سے تعلقات کو مضبوط بنانے میں لگا ہوا ہے۔ بھارت اپنی اس کوشش میں کتنا کامیاب ہوتا ہے یہ تو مستقبل ہی بتائے گا مگر بھارتی آرمی چیف کے دورے کے بعد پاکستان کے سعودی عرب میں سفیر راجہ علی اعجاز کی بھی سعودی عرب کے دفاعی حکام سے ملاقات کی جبکہ اسی ہفتے کے آغاز پر سعودی عرب کے اسلام آباد میں سفیر نے بھی وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات ظاہر گرتی ہے کہ برف پگھلنا شروع ہوچکی ہے۔ پاکستان سعودی عرب تعلقات کے اس نازک دور میں پاکستانی سفیر راجہ علی اعجاز بھی اپنے کندھوں پر سفارتکاری کی بھاری ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب یقینا ایک دوسرے کے لئے بڑی اہمیت کے حامل ہیں، دونوں ممالک کے موجودہ تعلقات کو افواہوں کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے حقیقت سے پوچھا جائے تو وقتی طور پر پیدا ہونے والے اختلافات زیادہ دیر قائم نہیں رہیں گے۔ پاکستان اس وقت سیاسی، سفارتی اور دفاعی حکام کے ذریعے اپنے اختلافات ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی تاریخ قدر مضبوط ہے کہ یہ اختلافات ہمیشہ قائم رہیں یہ ممکن نہیں۔ انشاءاللہ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تعلقات دوبارہ معمول پر ہوں گے مگر بھارت کے سمجھ لینا چاہیے کہ” ہنوز دلی دور است
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here