مجیب ایس لودھی، نیویارک
سقوط ڈھاکہ ایک قومی سانحہ ہے جس کے متعلق ہمارے نوجوانوں سمیت ملک کی اکثریت صرف کتابوں پڑھا احوال جان کر معاشرے میں اس سے جڑی غلط باتوں کو بیان کررہی ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ، میرے والد شفیق لودھی قومی اسمبلی میں ڈپٹی سیکرٹری کی پوسٹ پر فائز تھے انھیں حکومت نے حکم دیا کہ آپ ڈھاکہ جائیں اور اجلاس کی تیاری کریں ، والد صاحب تمام فیملی ممبران کے ہمراہ ڈھاکہ آئے اور اجلاس کی تیاریوں میں لگ گئے جبکہ بارڈر پر حالات خراب تھے اور اسی اثنا میں گوریلا وار شروع ہوگئی اور پھر جنرل ٹکا خان کے بعد جنرل یحیٰ نے کمان سنبھالی تو جنگ لگ گئی ، ہماری فوج کے پاس نہ میدانی اسلحہ تھا نہ ہوائی جہاز جدید تھے صرف چند چھوٹے جہاز تھے جبکہ انڈیا کے پاس مگ 21طیارے تھے جنھوں نے تمام ائیرپورٹس تباہ کر کے ہمارے تمام جہاز ناکارہ بنا دیئے تھے ، عام لوگوں کو نہیں معلوم کہ ہمارے فوجیوں نے جس جوانمردی سے جنگ لڑی ، آگے بھارتی فوج جبکہ پیچھے مکتی باہنی تھے ،جنرل نیازی کب تک لڑتا ہم جذبات میں اسے برا کہتے ہیں لیکن سچ یہی ہے کہ اگر وہ ہتھیار نہ ڈالتا تو ہماری 95ہزار فوج بھی نہ رہتی ،جسے انڈیا نے قیدی بنا لیا ، آج ایک بار پھر ہماری قوم ہمارے ناسمجھ لیڈروں کے رحم وکرم پر ہے ، اوورسیز پاکستانیوںکو چاہئے کہ اس میں متحد رہیں اور اپنے اصل دشمن کو پہچانیں جو شکلیں بدل بدل کر ہماری صفوں میں نظر آتاہے ، آزادی بہت بڑی نعمت ہے ،اس کی قدر کرنی چاہئے ۔ سقوط ڈھاکہ کا سارا منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ، میرے والد کا خیال تھا کہ وقت کے ساتھ حالات میں بہتری آئے گی ، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایوب خان نے اس وقت اسلام آباد کو ملک کا درالخلافہ بنایا تھا اور دوسری طرف ڈھاکہ کو دوسرا کیپیٹل منتخب کیا گیا تھا ،جب تک جنرل ٹکا خان کے پاس پاک فوج کی کمان تھی ، بھارت کو مشرقی پاکستان کی طرف دیکھنے کی جرات تک نہ ہوئی لیکن ان کے جانے کے بعد بھارت کو اپنی بزدلانہ کارروائی کا موقع ملا تو پاک فوج نے بھرپور مقابلہ کیا ، پاک فوج نے ہتھیاروں اور کھانے کی کمی کے باوجود گھاس کھا کر 100روز تک بھارتی فوج کا سیسہ پلائی دیوار کی طرح مقابلہ کیا جس پر دشمن بھی حیران رہ گیا ،ہتھیار ڈالنا آخری آپشن تھا لیکن بہت سے دلیر سپاہیوں نے ہتھیار ڈالنے کی بجائے آخری دم تک دشمن سے لڑتے ہوئے اپنے سینوں پر گولیاں کھائیں ،میں نے اپنی آنکھوں سے پاک فوج کی سڑکوں پر بکھریں لاشیں دیکھیں،ان مناظر کو بیان کرنے کیلئے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں ۔
سقوط ڈھاکہ کا سانحہ بپا ہوئے 47 برس بیت گئے لیکن روح کے زخم ہیں کہ مندمل ہونے کو نہیں آتے، مادر وطن کے جسم کو طمع ، لالچ ، نفرت ، وطن کی مٹی سے بیوفائی کے جو گھاو¿ لگے ان میں لہو آج بھی اسی طرح بہتا ہے جس طرح 47 برس قبل بہہ رہا تھا، زخموں کا رساو¿ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا ۔ نصف صدی بیت گئی مگر آج بھی ملک ٹوٹنے کے آنکھوں دیکھے مناظر یاد ہیں۔ وہ وقت یاد آتا ہے تو دل کڑھتا ہے کہ ہماری قوم کیسی ہے کہ اتنے بڑے سانحہ کے باوجود متحد نظر نہیں آتی۔ ہمارے حکمران جس طرح دست و گریباں ہیں اس کا اثر پوری قوم پر پڑتا ہے۔ بالکل ایسا ہی ہے کہ جس طرح کسی بھی گھر کے سربراہ کا رویہ ہوتا ہے۔ اس کا اثر تمام بچوں پر پڑتا ہے۔ یہی مثال حکمران کی بھی ہوتی ہے۔ حکمرانوں کی زبانوں میں حضور کے کردار کی جھلک نظر نہیں آتی جبکہ وہ ملک مدینہ کی مثالیں دیتے ہیں۔ حکمرانوں کو شاید معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہوتا ہے کہ وہ کچھ لوگوں کو حکمران بناتا ہے کیونکہ قوم کی خدمت کر کے ہی آپ دنیا اور آخرت دونوں بنا سکتے ہیں لیکن ہمارے کسی ایک حکمران میں حضور کی سیرت و کردار کی جھلک نظر نہیں آتی۔ ایک دوسرے سے جس منافقتی رویہ سے ملتے اور بات کرتے ہیں‘ اس میں مسلمانیت کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔ 47 سال قبل ہم ایک طاقتور ملک تھے۔ کس طرح دشمن کی سازش سے الگ ہوگئے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ڈھاکہ کو جلتے‘ برباد ہوتے‘ اپنے فوجیوں کی لاشیں گرتے دیکھا۔ میری عمر 13 سال تھی۔ میرے والد مرحوم قومی اسمبلی میں ڈپٹی سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے۔ ہزار بار لوگوں نے منع کیا کہ ڈھاکہ نہ جائیں‘ فرمانے لگے: بھائی بھائی ہیں‘ جھگڑے تو ہوتے ہی ہیں‘ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس لئے تمام گھر کے افراد کو لے کر قومی اسمبلی کے اجلاس کی تیاری کیلئے ڈھاکہ چلے گئے۔ عوام میں کوئی نفرت نہ تھی۔ پڑوسیوں میں بہت پیار تھا لیکن اس وقت بھی رفتہ رفتہ عوامی لیڈران نے اپنے روز کے بیانات سے عوام میں نفرت کو جنم دیا اور پھر چند ہی مہینوں میں محبت کو نفرت میں بدل دیا۔ بنگالی بڑی تعداد میں مکتی باہنی کی شکل میں انڈیا کے علاقے بنگال (آسام) میں فوجی ٹریننگ کیلئے جانا شروع ہوگئے۔ لاکھوں کی تعداد میں مکتی باہنی فوجی ٹریننگ لے کر واپس آنا شروع ہوگئے۔ مقامی اردو بولنے والی بہاری برادری مسلسل (پاکستان زندہ باد) کے نعرے لگاتی نظر آئی۔ ڈھاکہ میں محمد پور اور میرپور بہاری بھائیوں کی آبادی سے آباد تھا۔ جنگ شروع ہوگئی‘ پاک فوج کیلئے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ سامنے انڈیا کی فوج حملہ آور ہے جبکہ پیچھے سے مکتی باہنی والے حملہ کرتے تھے۔ ڈیڑھ لاکھ پاکستانی فوج کیا کرتی اور پھر جنگ صرف اسلحہ سے نہیں بلکہ عوام کے حوصلوں سے لڑی جاتی ہے۔ عوام ہی مخالف ہو جائیں تو دشمن مزید شیر ہوجاتا ہے۔ آج پاکستانی قوم جنرل نیازی کو برا کہتی ہے لیکن حقائق کوئی نہیں دیکھتا کہ وہاں ہماری فوج کو کیا کیا مسائل درپیش تھے۔ ہماری پاک فوج ان بدترین حالات میں بھی جس طرح جوانمردی سے لڑی اس کی مثال پیش کرنا مشکل ہے۔ کئی لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں لیکن میں کسی سے سنی باتیں نہیں کر رہا،میں خود وہاں موجود تھا۔ ایک لمبی کہانی ہے اور ہم کس طرح بچ بچا کر واپس پاکستان آئے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے سانحہ کے بعد بھی ہمارے قومی لیڈران میں حب الوطنی صرف باتوں کی حدتک ہی محدود ہے ، عمل کچھ نظر نہیں آتا، جتنے بھی سیاسی یا مذہبی لیڈران ہیں، صرف پیسوں کی دوڑ میں ہیں، عوام بری طرح برباد ہورہے ہیں۔ گزشتہ بیس سال میں اگر ہم دیکھیں تو محسوس ہو گا کہ ہماری 20 سے 25 سال کی عمر کی نئی نسل ایک تباہ حال جنریشن ہے جس نے ”اچھا“ کچھ نہیں دیکھا‘ مار دھاڑ کی سیاست دیکھی ہے یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل اپنے ملک سے بیزار ہو چکی ہے اور بیرون ممالک جانے کی منصوبہ بندی میں مصروف رہتے ہیں کیونکہ ان کو یقین ہوگیا کہ ملکی حالات میں کبھی بہتری نہیں آسکتی ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ بوجھ کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ، امین !