نظام قدرت اور انسانی فطرت

0
508
مجیب ایس لودھی

سب تعریف اللہ رب العزت کیلئے ہے جو بے حد مہربان نہایت رحم والا ہے۔ رب العالمین اور قیامت کے دن کا مالک ہے۔ اس کائنات کا وہی خالق ہے وہی رب السموات والارض ہے۔ بشمول انسان تمام ذی حیات کا رازق ہے۔ اس کائنات کی ہر شے اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تمحید میں مشغول ہے۔ ذرہ ذرہ پتہ پتہ اس کی توحید پر دلالت کرتا ہے۔ وہی بڑی عظمت’ بڑی شان و کبریائی اور زبردست قدرت و حکمت والا ہے۔ وہی یکتا اور بے مثل ہے۔ سب سے بے نیاز اور سب اسی کے محتاج ہیں۔ ساری کائنات میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بادشاہت و حاکمیت ہے۔ وہی حاجت روا اور سب سے اعلیٰ ہے۔ نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے۔ ساری کائنات میں نہ کبھی کوئی ایسا تھا اور نہ ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی مانند ہو۔ اللہ تعالیٰ کا کسی بھی لحاظ سے کوئی ہمسر نہیں۔ وہ تنہا ہے۔ تمام صفات عالیہ کا مالک ہے۔ تمام اختیارات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے۔ جسے چاہتا ہے اس کی نافرمانی کے سبب اسے عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور وہی قیامت کے دن دوبارہ اٹھائے گا۔ اسے ہر چیز کا علم ہے اور دلوں کابھید جانتا ہے۔ حی و قیوم ہے۔ وہی اول ہے اور آخر بھی۔ ظاہر بھی اور باطن بھی۔ اللہ تعالیٰ نے آخرت تک کے انسانوں کے لئے حضور پاکۖ پر قرآن حکیم نازل فرمایا۔ قرآن حکیم اللہ تبارک و تعالیٰ کا فصیح و بلیغ کلام ہے جو انسان کے لئے کامل ہدایت نامہ رشد و ہدایت کا سرچشمہ’ مکمل دستور العمل اور حضور پاک ۖ کی سیرت طیبہ قرآن حکیم کی تفسیر و تشریح ہے۔ دین اسلام قرآن و سنت پر مشتمل دین فطرت ہے۔ دنیا و آخرت میں فلاح و کامیابی کا دارومدار دین اسلام کی پیروی پر موقوف ہے۔ قرآن حکیم حکمت یعنی عقل و دانش کی باتوں کا مخزن ہے۔ قرآن حق ہے ایمان والوں کے لئے ہدایت بشارت پرہیزگاروں کیلئے نصیحت رحمت’ بصیرت اور شفا ہے۔ حق و باطل میں فرق دکھانے والی کتاب ہے۔ علم و حکمت اور اخلاقی تعلیمات کا منبع ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات و صفات قدرت و حکمت کو کھول کھول کر بیان کرنے والی کتاب ہے۔ انسان کی زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہدیت نامہ ہے۔ قرآن حکیم انسان کو نظام قدرت پر غور و فکر’ تدبر و تفکر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔وہ انسان کو قدرت کے مظاہر پر گہری نظر مطالعہ و مشاہدہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ انسان کی تخلیق اور اس کے وجود میں سورج’ چاند تاروں کے نظام میں حیوانات’ نباتات و جمادات میں’ دن رات کے ردوبدل میں دریا و سمندر’ زمین و آسمان میں حق تعالیٰ کی توحید و وحدانیت ‘ قدرت و حکمت کی بہت سی نشانیاں ہیں۔ براہین و دلائل ہیں کہ انسان ان پر غور کرے یہ نشانیاں انسان کو اس امر کا یقین دلانے کیلئے کافی ہیں کہ اس کائنات کو اللہ تعالیٰ نے بنایا اور وہی اکیلا اس پوری کائنات کاتدبیر کرنے والا اور فرمانروا ہے۔ خداتعالیٰ نے اپنے سچے پیغمبر کی تصدیق کیلئے کبھی بطور خود اور کبھی قوم کے مطالبہ پر ایسی نشانیاں ناز ل فرمائیں جو انبیاء و رسل کی تصدیق کا باعث بنیں اور معجزہ کہلائیں۔ ان میں سے چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت نے نوح علیہ السلام کی قوم کے تمام کافروں کو طوفانِ آب سے غرق کر دیا۔ نوح علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں کو جو کشتی پر سوار تھے انہیں بچا لیا۔ اللہ رب العزت نے کشتی کے تحفظ کو رہتی دنیا تک کیلئے نشانی بنا دیا۔ حضرت ہود علیہ السلام کی قوم عاد کے غرور و سرکشی پر ہولناک عذاب آٹھ دن اور سات راتیں پیہم تیز و تند ہوا کے طوفان نے اسے تباہ و برباد کر دیا۔
اللہ تعالیٰ کا نظام جسے ہم نظام قدرت بھی کہتے ہیں اُسے سمجھنا ہر انسان کے لیے بہت اہم ہو تا ہے کیونکہ اگر ہم زندگی کے ابتدائی دور میں ہی بچوں اور اللہ تعالیٰ کے نظام کو سمجھنا شروع کردیں تو ہر انسان کو اس دنیا میں آنے یہاں رہنے اور پھر دنیا سے روانگی کا قدرت کا نظام سمجھ میں آ جائے گا اور وہ سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز فانی ہے ، انسان پیدا ہونے سے لیکر بڑھاپے تک مسلسل جنگ کی صورت میں رہتا ہے، پیدا ہوتے ہی والدین بچے کی تربیت و تعلیم کی فکر شروع کر دیتے ہیں اور اس بھاگ دوڑ میں بڑھاپے کی عمر ہو جاتی ہے بلاآخر موت بشر موت کی آغوش میں چلا جا تا ہے بلکہ موت اس کے انتظار میں ہوتی ہے لیکن دوسری جانب دیکھا جائے تو انسان کی زندگی کے ہر لمحہ کی اپنی اہمیت ہوتی ہے جسے وہ بھرپور سرور میں انجوائے کرتا ہے ،وہ جب تک دنیا کی دوڑ میں رہتا ہے اسے صرف اعلیٰ مقام ،بھرپور طاقت اور زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کی فکر ہوتی ہے جب اس کی عمر بڑھاپے کو پہنچتی ہے ماضی کی ایک فلم کی صورت میں نظر آتا ہے لیکن مذہبی طور پر دیکھا جائے تو تمام مذاہب زندگی کو ایک امتحان گاہ قرار دیتے ہیں ، ہمارا بھی ایمان ہے کہ اس دنیا میں اچھا یا بُرے کرنے کا رزلٹ ہمیں آخرت میں ملے گا لیکن کیا خوب بات ہے کہ ہر انسان کو معلوم ہے کہ دنیا مستقل نہیں بلکہ عارضی ہے لیکن پھر بھی دنیا کا تقریبا ہر انسان صرف دنیا میں اچھا رہنے ، طاقت کے حصول ، اعلیٰ مقام کے حصول اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے سرگرم عمل رہتا ہے ، اپنے آپ کو اعلیٰ اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے ، انسان کے پاس کتنا ہی بڑا گھر ہو ، سونا ہو ایک ہی چار پائی پر سوتا ہے ، کتنی ہی دولت ہو کھانا اس کی ضرورت کے مطابق ہوتا ہے لیکن پھر بھی انسان کی فطرت اسے سکون نہیں دیتی اگر سکون حاصل ہوتا ہے تو صرف انسانیت کی مدد کر کے ہی ملتا ہے ، چھینا چھپٹی سے نہیں مل سکتا ، اگر انسان اللہ تعالیٰ کے نظام کو سمجھ جائے تو اللہ دنیا وی پریشانیوں سے انسانی نجات مل سکتی ہے اور وہ بغیر کسی نقصان دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکتا ہے ، آیئے نظام قدرت کو سمجھیں ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here