وائرس کے بعد امریکہ یوم آزادی(4جولائی)کے بعد پوری طرح کھل چکا ہے۔ ہمارے پاکستانی افغانی، ایرانی، بنگلہ دیشی ریستوران تو COVID-19 کے دوران بھی کھلے ہوئے تھے اور ٹیک آئوٹ کے آرڈروں کا انبار لگا ہوا تھا۔موقعہ سے فائدہ اٹھاتے اور فطرت سے مجبور سب نے لوگوں کا رش اور لائن میں دیکھ کر قیمتیں بڑھا دی تھیں ان میں اکا دکا ریستوران ایسے تھے جو خوف خدا کے تحت ضروررت سے زیادہ منافع خوری سے دور تھے۔ان میں ویلی اسٹریم کا باربی کیو ٹونائٹ شامل ہے۔دوسرے نمبر پر منافع خوری میں قصائی(گوشت بیچنے والے)تھے جو ہلال کا سائن لگا کر لوٹ مار میں مصروف تھے جبکہ امریکی اسٹور اور دوکانوں میں قیمتیں نہیں بڑھائی گئی تھیں۔اس میں چھوٹی دوکان والا ہول سیل سپلائرز کو مورد الزام ٹہرا رہا تھا۔جو پاکستانی مسلم ہیں سوائے ترکش کے جو چکن سپلائی کرتے ہیں۔انکا کہنا تھا بکریاں اور گائے ٹیکساس سے آتے ہیں۔ٹرانسپورٹ مہنگی ہوگئی ہے تو ہم کیا کریں اور اس کا کوئی توڑ نہیں تھا کہ آپ کس محکمہ سے شکایت کرینگے بس قیمتوں کی کمی کا انحصار صارفین پر تھا ہم نے سوشل میڈیا درخواست کی کہ صرف دو ماہ بکرے کا بائیکاٹ کردیں لیکن لوگوں کے پاس غلط پیسہ اور حکومت کے فوڈاسٹمپس ہیں انکی صحت پر کوئی آنچ نہیں آتی تھی۔ایک سے ہم نے کہا بھائی یہ گیارہ ڈالر پونڈ پورا بکرا کون خریدتا ہے۔اس کا جواب تھا۔ڈاکٹرز، کنٹریکٹرز اور ویلفیئر والے یہاں والے ہماری بات سمجھ رہے ہیں۔گھر گھرUBERریستوران سے آرڈر آپ کے دروازے پر پہنچا رہا کہتے ہیں جنگ میں تباہی اور بربادی ہوتی ہے لیکن بہت سے لوگوں کی چاندی بھی بنتی ہے۔اس کی تفصیل ہے سو اب یہ نئی بات معلوم ہوئی وبا پھیل جائے تو بھی منافقوں کی عید ہوتی ہے۔اس دوران گھر گھر مرمت کا کام ہورہا تھا۔گورنمنٹ کے ضرورت سے زیادہ دیئے گئے پیسوں سے بے روزگار الائونس کے علاوہ چھ سو ڈالر مزید ہر ہفتہ اور اب3سو ڈالرمزید ہفتہ اور ہر بچے کا علاوہ الائونس اکانومی جو بکھر گئی تھی راتوں رات اُٹھ گئی۔کووڈ کے دوران جو ابھی بات ہے اتنی اٹھی کہ امریکی ریستوران والے چیخنے لگے کہ لوگ کام پر واپس نہیں آرہے اور وہ کیوں آتے جب انہیں بغیر محنت کئے پیسہ مل رہا ہے۔صرف علیحدہ علیحدہ عوام کی جیبیں ہی نہیں بلکہ بزنس والوں کی بھی جیبیں بھی بھری گئیں انکی فروخت کے حساب سے ہمارے پاکستانی اس میں مار کھا گئے کہ وہ اپنی آمدنی اتنی ہی ظاہر کرتے تھے کہ وہ ریاست کی دی ہوئی مراعات اور سہولتوں کے حقدار بن جائیں قانون کے تحت ریاست کو اس سے غرض نہیں کہ فوڈ اسٹمپ یا مفت کی صحت وعلاج کی سہولتیں لینے والا گھر کا یا مرسیڈیز اورBMWکار کا مالک ہے۔کوئی پکڑ نہیں سب خوش اور سیاست دان خوش۔ اسی دوران کار ڈیلروں کے کاروں(نئی اور استعمال شدہ) کی قیمتیں اور لیز کی رقم بھی بڑھا دی مصنوعی قلت پیدا کرکے استعمال شدہ کاروں کی قیمتیں بڑھانا سراسر چور بازاری ہے مگر کوئی پکڑ نہیں۔نئی کاروں کی زیادہ قیمت کا جواز تھاکہ چین سے CHIPS نہیں آرہا کاریں بننا بند ہوگئی ہیں۔ دوسرےCOVID-19 میں فیکٹریز بند ہیںلیکن یہ کار ڈیلرز کی ہر بلاک میں بھری بھری لاٹ دیکھ کر سوچ رہے تھے۔ یا الٰہی یہ ماجرہ کیا ہے ہم نے بھی موقعہ سے فائدہ اُٹھایا کہ اپنیHONDA CIVICٹربو کار کو لیز ختم ہونے پہلے ہی ٹھکانے لگا دیا۔جس سے ہم تنگ تھے۔90ڈگری درجہ حرارت میں ایرکنڈیشن بے کار تھا اندر سے جگہ بے حد کم تھی۔ڈرائیور کے برابر والی سیٹ فرش پر رکھی ہوئی تھی ڈیلر کا فون آیا ”تمہاری لیز ختم ہونے میں دو ماہ ہیں۔واپس کرنے پر800ڈالر بھی دینا ہیں۔اور باڈی پر کوئی نشان یا ٹوٹ پھوٹ ہے۔اس کا بھی دینا ہے۔اگر ابھی واپس کر دو تو سب معاف”ہم نے فورا” جواب دیا۔”کب اٹھائو گے کار کو چاہو تو ابھی لے جائو” مختصر یہ کہ وہ دوسرے دن کا راٹھا کر لے گئے۔ہمیں15سو ڈالر کا خالص فائدہ ہوا کہہ سکتے ہیں۔کہCOVID-19سے ہمیں بھی مالی فائدہ ہوا ہے۔یہ بھی بتاتے چلیں کہ کار خریدنے اورلیز کرنے والوں کا ہجوم لگتا تھا کسی کے پاس کوئی کار نہیں تھی نیویارک میں چونکہ تیسری دنیا کے لوگ رہتے ہیں۔اور ذخیرہ اندوزی فطرت میں ہے کہ کل چیز ملے یا نہ ملے یہ ہجومCOVIDکے زمانے میں کھانے پینے کی اشیاء کی دوکانوں(FOOD MARKET)میں دیکھا جب کہ ہر چیز کی کمی تھی باتھ روم ٹشو ناپید ہوگیا تھا ،اس کی وجہ وہ ہی ذخیرہ اندوزی تھی اور کریڈٹ کارڈ کا کمال تھا یہ ہی کچھ کارڈ ڈیلرز کا ہے کہ جیب پھوٹی کوڑی نہیں اور آب مرسیڈیز لے کر نکل رہے ہیں۔یہاں میں تیسری دنیا کے لوگوں کی بات کر رہا ہوں۔ڈاکٹرز اور لکھ پیتوں کی نہیں کیا نظام ہے کہ4جولائی کی رات کو ہمارے گھر کے چاروں طرف آتش بازی کا بازار گرم تھا۔جو لاقانونی ہے لیکن پولیس غائب تھی اور تیسری دنیا سے آکر بسے لوگ جشن آزادی منا رہے تھے اور جو یہاں والے ہیں شہر سے باہر رہتے ہیں گھروں میں بیٹھے عزیز واقارب کے ساتھ پارٹیاں کر رہے تھے۔
دوسرا بڑا رش ایئرپورٹس پر دیکھنے کو ملا کہ ایئرلائنز والے منہ مانگی قیمت پر ٹکٹ بیچ رہے تھے۔نیویارک سے اٹلانٹا ریٹرن ٹکٹ(فاصلہ760میل)5سو ڈالر کا تھا۔عام دنوں میں نیویارک شکاگو(فاصلہ810میل)نوے ڈالر میں آنا جانا کیا تھا۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ضرورت مانگ اور لوگوں کے ہجوم کے مدنظر ہر کمپنی فائدہ اٹھا رہی ہے اور سہولتوں میں کمی کر رہی ہے۔مثال یہ کہ بہت پہلے کار میں پانچواں ٹائر پورے سائز کا تھا پر اسے چھوٹا کر دیا اور ڈونٹ ٹائر کا نام دے دیا اور اب ٹائر غائب اس کے ساتھ اوزار جو ٹائر کو روٹر سے نکالتے اور لگاتے اور جیک اب کرتے ہیں۔غائب، بچت فی کار انکے لئے50سے75ڈالر ضرب کردیں۔اربوں کاروں سے اس پر ایک اور بدمعاشی کہ ہر سال چھوٹی کار کی قیمت میں ایک سے ڈیڑھ ہزار ڈالر کا اضافہ ان سب چور بازاروں کے علاوہ سب سے زیادہ منافع یا موقعہ سے فائدہ اٹھانے والے قزاق، دوا ساز کمپنیاں تھیںجنہیںCOVID-19کی ویکسین کی پیشگی قیمت دے دی گئی۔اس کے ساتھ ہی ہسپتال کارپوریشن ہیں جو اپنے منافع کو لمحہ بہ لمحہ بڑھا رہی ہیں۔اسی دورانAMAZONکا منافع تین گنا ہوگیا ہے کہ اس نے خریدوفروخت کا کلچر بدل کر ایک تو بڑے بڑے اسٹورز بند کروا دیئے دوسرے میل آرڈر کا عادی کرکے نئی جنریش کو ست اور کا ہل بنا دیاکہ ہر چیز میل آرڈر سے آرہی ہے اور لوگ اپنے گھر میں قیدی بن گئے ہیں۔بہت کچھ ہے لکھنے کے لئے اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آج کا انسان روبوٹ بن کر زومبی کی حرکتیں کر رہا ہے۔آپ نے چڑیا گھر میں دیوار سے لگے بیٹھے گوریلے کو دیکھا ہے تو انسان کو گھر کے گوشے میں تنہا بیٹھے آئی فون کے ساتھ دیکھ لیں۔
٭٭٭