”براڈ مائنڈڈ”

0
116
شبیر گُل

عورت مارچ ایجنڈا قانون بن گیا’ والدین ہونا جرم ٹھہرا’ گھریلو تشدد بل پاس، اگر یہ بل اردو میں ہوتا تو کوئی پیش کر نے کی جرات ہی نہ کرتا! خود اراکین سینٹ ہی بل پیش کرنے کرنے والے کی جوتوں سے مرمت کر دیتے! یہ بل انگریزی میں اس لئے پیش کیا گیا ہے تاکہ عوام اور اراکین سینٹ کو دھوکہ دیا جاسکے۔پاکستان میں ریاستی سطح پر انگریزی ہمیشہ واردات کرنے’ دھوکہ دہی ‘ جعلسازی’ دو نمبری کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے!
اس بل سے دو نمبر عورتوں کی تعداد بڑھے گی۔ Prostitution بڑھے گی۔ نکاح جیسے مقدس رشتے کی توہین ہوگی۔ بل سے میاں بیوی میں مصالحت اور صلح کا پہلو نکال دیا گیا۔ معاشرے کی پیٹھ میں چْھرا کھونپا گیا ہے۔ بل معاشرے اور خاندانی نظام کو تباہ کردے گا۔ کیا عورت کی عزت کے لئے مرد کی بے عزتی ہی ضروری ہے۔ ؟ ایک دوست لکھتے ہیں کہ سابقہ حکومت میں جب تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ترمیم کا بل پیش کیا گیا۔ اس بل پر جن لوگوں کے دستخط تھے ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ آپ اس بل پر دستخط کر کے توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرتکب ہوئے ہیں ؟ ہمارے اس شعوری مہم کا یہ نتیجہ نکلا کہ اگلے روز ہی ظفر اللہ جمالی مرحوم سابق وزیراعظم کا یہ بیان منظر عام پر آگیا” توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والی پارلیمنٹ فنا ہوجائے”
بالکل اسی طرح سینٹ میں گھریلو تشدد کا جو بل پیش کیا گیا جس میں پاکستان کے خاندانی نظام کے پرخچے اڑانے کی بنیاد رکھی گئی ہے۔اراکین پارلیمنٹ نے انگریزی کی نوسر بازی کی وجہ سے کچھ نہ جانتے ہوئے گھریلو تشدد بل کو قانون کی شکل دے دی۔پاکستان کی تہذیب ‘ خاندانی نظام کو بربادیوں سے بچانے پاکستان کو خوشحالی’ ترقی ‘ علم تخلیقیت کی راہ پر ڈالنے’ آوارہ گردی’ فحاشی’ بے راہ روی’ لادینیت کا راستہ روکنے کے لیے اردو کا نفاذ بہت ضروری اور نا گزیر ہو چکا ہے۔
ایسی پارلیمنٹ اور سینٹ پر لعنت۔ حکومت اور ابو جہل کے بچوں پر لعنت۔ کیا شیریں مزاری جیسی کْتیاں اب ہمیں خاندانی سسٹم چلانا سکھائیں گی۔ ماروی سرمد جیسی بازاری عورتیں ہمیں تہذیب و تمدن پڑھائیں گی۔ لعنت ایسے بے غیرت اور بے حس معاشرے پر جہاں رسول اللہ کے خطبہ الوداع کے متن کی سینٹ میں توہین ہو اور ہم خاموش رہیں۔ قارئین کرام!۔
ہمارے ساتھ گزشتہ تین سال سے ایک شخص وائلنٹیر ہے۔ ہفتہ میں تین چار بار پینٹری کے لئے فوڈ ، پک اینڈ ڈراپ کرتا ہے۔ سابق آرمی آفیسر ہے۔ اکثر ایک عورت کے ساتھ ہوتا جو اسکی گرل فرینڈ تھی۔ گزشتہ ہفتے اْسے کوئی نیا بوائے فرینڈ مل گیا۔اسکے پوچھنے پر کہ یہ بندہ کون ہے اور ہمارے گھر کیا کررہا ہے تو رات گیارہ بجے اسے ،اسکے کپڑے اور سامان ،اپارٹمنٹ سے باہر پھنک دیااور پولیس کو بلا لیا۔ اسکی مجھے کال موصول ہوئی ، جب میں وہاں پہنچا تو اسے روتے ہوئے انتہائی بے بس پایا۔ گزشتہ ہفتے سے بالکل خاموش ہے۔ کیا ہم اس ملک میں ایسا معاشرہ لانا چاہتے ہیں جہاں ایسے ہی بے بس اور اخلاقیات برباد ہوں پھر ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کی نعمتوں سے لْطف اندوز ہوتے ہیں۔ اسکے آئین اورنظریہ کے خلاف محاذ قائم کرنا،اسکی اخلاقی ویلیوز کو داغدار کرنا، کہاں کی تہذیب ہے۔ میں تو کہونگا کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے ماں کی کوکھ سے جنم لینا اور پھراْسے طوائف قرار دیدینا۔چونکہ مغربی تہذیب میں عورت تھوڑے عرصہ بعد اپنی جنسی تسکین کے لئے مرد تبدیل کرتی ہے۔ ماں کے سامنے بیٹا اور بیٹی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ سبھی کچھ کرتے ہیں بلکہ بیٹے اور بھائی سے منہ کالا کرتی ہیں۔ آج پاکستان میں مغربی تہذیب کے دلدادہ ، مادر پدر آزاد، میرا جسم میری مرضی ، موم بتی مافیا اور خاندانی نظام کے مخالفین گماشتے نکاخ کے خلاف اور زنا کے حمایتی ہیں۔ یہی وہ کلچر ہے جس نے ہماری، اخلاقی ، سماجی اور ثقافتی ہیت ہی بدل دی ہے۔ ہم دیار غیر میں آکر ، اپنی زبان ، اپنی ثقافت اور دین سے جْڑنے کی جستجو کرتے ہیں۔ اپنی فیملیز اور بچوں کو یورپی اور امریکن تہذیب کی خرافات سے بچانے کے لئے مساجد اور درس گاہیں قائم کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں۔ درجنوں فیملیز کی کونسلنگ کرنے ، مساجد اور امامز کے درمیان bridge قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکہ میں اٹھائیس سال گزارنے کے بعد اور کمیونٹی کے ساتھ کام کرنے میں سینکڑوں دردناک، اذیت ناک اور عبرتناک مثالیں میرے سامنے موجود ہیںجن کو بیان کرتے ہوئے کلیجہ مْنہ کو آتا ہے۔ اکثر اوقات مسلم فیملیز کی mediation میں راتوں کو سو نہیں پاتے۔ بچوں اور بچیوں کے ہاتھوں ماں باپ کو ، تھپڑ ، کھاتے ، گھروں سے دھکے ، رْلتے اور بلکتے دیکھا ہے ہم چونکہmain stream میں فوڈ ، گراسری اور پینٹری کا کام کرتے ہیں جہاں بچوں کے پاس لگثری گاڑیاں ، بڑے بڑے گھر ہیں لیکن ماں باپ کی حالت زار دیکھ کر ترس آتا ہے۔ جہاں اس نظام کی خاندانی نظام سے متعلق خرابیاں ہیں۔ وہاں ہمارے تہذیب و تمدن سے چْرائے گئے اخلاقیات، عدل و انصاف بھی موجود ہیں جنکی مثالیں اور تعریفیں ہمارا لبرل طبقہ کرتے نہیں تھکتا۔
قارئین ! اگر آپ چودہ سو سال پیچھے مشرکانہ تہذیب کے خدوحال اور ہسٹری کو پڑھیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ہی جانوروں کے معاشرے میں انسانیت پہنچی تھی۔ دور مت جائیں ابھی کل ہی کی تو بات ہے امریکہ اور برطانیہ نے کروڑوں انسانوں کو جانوروں کی طرح چْن چْن کر ذبیع کیا۔ پنجروں میں بند کرکے رکھا جاتا تھا۔ کوئی کالا ، گوری چمڑی والے کے برابر بیٹھ نہیں سکتا تھا،انکی نفرت اور تہذیب کا (جن )اکثر الماری سے باہر نکل آتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں بیٹھے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کون ہے جو میرے دشمن ”ابو رافع” کو قتل کرکے جنت حاصل کرے گا۔ ایک نابینا صحابی جو پیچھے بیٹھے تھے چْپکے سے گھر سے خنجر لے کر رافع کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔اسکے محل کے باہر اْسکے گھر آنے کا انتظار کرتے رہے، آدھی رات کو موقع پا کر رسول اللہ کے دشمن کو خنجر کے وار سے قتل کردیا اور آکر فجر کی نماز میں دیوار کے ساتھ بیٹھ گئے۔ ادھر جبرائیل امین رسول اللہ کے خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایانابینا صحابی نے آپکے دشمن کو قتل کر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی رسول کو بلایا اور پوچھا کہ دشمن رسول کو تم نے قتل کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یا رسول اللہ آپکے دشمن کو میں نے قتل کیا ہے۔ حضور اکرم نے اعلان کیا کہ جس نے جنتی کو دیکھنا ہو وہ ابو عتیق کو دیکھ لے جس نے رسول اللہ کے دشمن کو قتل کیا ہے ۔ ابو رافع گلیوں اور چوراہوں میں رسول اللہ کو گالیاں دیا کرتا تھا۔ کیا آج ہماری سینٹ اور اسمبلی میں ایک بھی ایسا غیرت مند نہیں جو اللہ اور رسول اللہ کے دین کے باغیوں سے پوچھ سکے۔ ایک بھی ممبر اسمبلی نہیں جو دین کے دشمن کے خلاف اسمبلی اور سینٹ میں کھڑا ہوسکے۔ ڈومیسٹک وائلنس بل دراصل گندے انڈوں کا عورت تک پہنچے کا راستہ ہے۔ نئی تہذیب کے ان گندے انڈوں کو اُٹھا کر باہر پھینک دینا چاہئے۔انشاء اللہ اس بل کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیاجائے۔ شیری مزاری جیسی گٹر عورت اسلامی شعائر کی توہین کرتی ہے اور پی ٹی آئی کا کوئی غیرت مند مرد اسکی زبان نہیں کھینچتا۔ انشاء اللہ یہ بل عمران خان اور اسکے پلید چمچوں کا جنازہ نکال دے گا۔ منافق اعظم اور اسکے حواری ریاست مدینہ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں جس ریاست میں میرا جسم میری مرضی کے گماشتوں کو کھلی چھٹی ہے۔ قومی اسمبلی کے ہر اجلاس سے پہلے قرآن کی تلاوت ہوتی ہے، اسمبلی پر کلمہ طیبہ لکھا ہے اور اندر کلمہ کے مخالفین بیٹھے ہیں۔
آج ملک کے ہر بڑے ادارے میں دین کے دشمن اور موم بتی مافیا بیٹھے ہیںجو کرپشن، رشوت اور بے حیائی کے سپورٹرز ہیں۔ ہم نے گزشتہ ہفتے عمران کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے لیکن جب سینٹر مشتاق خان کا انٹرویو سْنا تو اندازہ ہوا کے منافقوں اور بدمعاشوں کا باپ ایک ہی ہے۔ اندر سے سب ایک ہیں۔ جب کسی قوم پر اجتماعی عذاب آتاہے۔ اْسکے پیچھے ظلم،بے انصافی ،بے حیائی،اللہ کے احکامات کی نافرمانی ہوا کرتی ہے۔ قرآن میں قوموں کی تباہی کا ذکر کئی جگہ ملتاہے۔ چند سال پہلے کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں زلزلہ کی تباہی، دلخراش مناظر نے اللہ کی کبریائی کی جھلک نظر آئی تھی۔ آج کل کرونا وائرس کی وباء بھی اللہ کا عذاب ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ فحاشی ،عریانی اور بے حیائی جب حد سے بڑھ جائے یا اللہ کے احکامات کو چیلنج کیا جائے تو اسکا عذاب آتے دیر نہیں لگتی،اسکی لپیٹ میں ، گنہگار، نیک ،امیر غریب، بادشاہ اور فقیر سبھی آ جاتے ہیں۔
اللہ رب العزت کے قانون کے ساتھ کھیلنے ، اسکے احکام کا تمسخر اُڑانے پر خاموشی اختیار کرنے والے بھی اسکے عذاب میں لپیٹ دئیے جاتے ہیں جیسا کہ مملکت خداداد میں سینٹ نے قرآن کی روح کے خلاف قانون پاس کیا ہے، اس پر خاموشی ملک میں بے حیائی کے طوفان کیطرف اشارہ ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here