ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے سرسری طور پر اشارہ دیتے ہوئے عرض کیا تھا کہ سندھ میں خصوصاً شہری علاقوں اور بلوچستان میں باپ پارٹی (بلوچستان عوامی پارٹی) کے لوگوں کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کا معاملہ کسی سیاسی سوچ یا مقبولیت کا نتیجہ ہر گز نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کے پس منظر میں فیصلہ سازوں کی منشاء و رضا ایک لازمی امر ہوتی ہے، ہمارے اس احساس کا محرک سیاست کی گزشتہ 70 دہائیوں کی حقیقت ہے جو غلام محمد جیسے بیورو کریٹ کو ڈھال بنا کر اسکندر مرزا و ایوب خان سے شروع ہوئی اور جنرل باجوہ کے عمران خان کو وزیراعظم بنانے اور گزشتہ اپریل میں رجیم چینج کی شکل میں کپتان کو ہٹانے سے عبارت ہوئی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں شہید ملت لیاقت علی خان سے لے کر عمران خان تک کوئی بھی منتخب وزیراعظم اپنی مدت وزارت پوری نہ کر سکا۔ یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ فوجی حکمرانوں نے ملک پر اقتدار کے عشرے مکمل کئے ماسوائے یحییٰ خان کے جسے سانحۂ مشرقی پاکستان کی وجہ سے اپنا اقتدار چھوڑنا پڑا۔ ان حقائق کو سامنے رکھ کر اگر دیکھا جائے تو ایک قدر مشترک یہ بھی سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کبھی بھی پنپ نہیں سکی ہے، جتنی بھی سیاسی حکومتیں بنیں وہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی و رضا کے طفیل ہی بنیں اور اس کیلئے جو بھی کھیل کھیلے گئے ان کا علم ہر پاکستانی کو بخوبی ہے۔
وطن عزیز کے موجودہ سیاسی حالات بھی کچھ ایسے ہی اشارے دے رہے ہیں کہ سیاست کا نقشہ مقتدرین و فیصلہ سازوں کی مرضی کے مطابق ترتیب دیا جائے۔ عوامی اُمنگوں اور حمایت کو پس پُشت رکھتے ہوئے ایسا نظام حکومت لایا جائے جو مقتدروں کے حسب منشاء عمل پیرا ہو۔ عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کے بعد جو حالات رونما ہوئے ہیں اور سیاسی عدم استحکام، معاشی ابتری، عوام کی بدحالی کیساتھ جرائم کی بڑھتی ہوئی صورتحال نے جہاں ملک کو ناکامی وبدحالی پر لاکھڑا کیا ہے وہیں اندرونی و بیرونی دشمنوں کی جانب سے دہشتگردی کے واقعات ملک کی سلامتی و بقاء کیلئے تازیانہ ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب دہشتگردی کے سبب ہمارے فوجی جوانوں، سیکیورٹی اہلکاروں اور لاء اینڈ آرڈر کے ذمہ داروں پر حملے نہ کئے جاتے ہوں، شہادتوں اور مضروبیات کا ایک سلسلہ ہے جو تھم نہیں رہا ہے۔ یہی نہیں ملک کے طول و عرض میں جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات لاء اینڈ آرڈر کی بدترین صورتحال نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے، مزاحمت پر قتل کر دینا معمول بن چکاہے جس میں مرد، عورت، بچے کی کوئی تخصیص نہیں نہ ہی کوئی شہر، قصبہ یا گائوں اس صورتحال سے بچا ہوا ہے۔ پولیس اور سیکیورٹی کی بے بساطی کی مثال اس سے لگائی جا سکتی ہے کہ دارالحکومت اسلام آباد اور معاشی دارالحکومت و عروس البلاد کراچی کے اعلیٰ سیکیورٹی کے عہدیداران عوام کو ڈکیتی و لوٹ مار پر مزاحمت کرنے سے اجتناب کرنے کی درخواست کر رہے ہیں، لاقانونیت کی اس سے بدترین مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ جرم اور مجرم کی بیخ کنی کرنے والے متاثرین کی حفاظت و جرم کو کنٹرول کرنے میں بے بس نظر آتے ہیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ وہ کیا عوامل و محرکات ہیں جو وطن عزیز کو ان بدترین حالات پر لے آئے ہیں، جہاں ملک کی معیشت روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے، عوام کو مہنگائی کے سبب بنیادی ضرورت اور پیٹ بھرنے کی سہولتیں مسدود ہو گئیں ہیں، آٹے کے حصول کیلئے بھگدڑ میں لوگ مر رہے ہیں، لیٹروں اور ڈکیتوں کے ہاتھوں بے گناہوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں، سیلابی متاثرین کی زندگیاں اجیرن ہیں اور بلا ناغہ ہماری حفاظت و وطن کی سلامتی کے ہمارے عسکری و سیکیورٹی ذمہ دار شہادت کے جام پی رہے ہیں۔ ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ وہ بڑھتی ہوئی صورتحال ہے جس میں ہماری سیاسی اشرافیہ، اسٹیبلشمنٹ اور عدالتی ادارے اغراض کا کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام برائیوں اور بد نظمیوں کی جڑ وہ سیاسی تماشہ بازی ہے جو عمران خان کی حکومت جانے کے بعد جاری و ساری ہے۔ اس تماشہ بازی میں وہ سارے ایکٹر شامل ہیں جنہیں ملک و عوام سے زیادہ اپنے مقاصد و اہداف عزیز ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں شفاف جمہوریت قائم ہو اور عوام اپنے حقیقی نمائندوں کا نتخاب کر سکیں۔
یہ بات بلاجھجک کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت عمران خان پاکستانیوں کا مقبول ترین و محبوب ترین لیڈر اور پی ٹی آئی پاکستان کے تمام صوبوں و شہروں میں عوام کی اولین ترجیح ہے۔ فیصلہ سازوں کی نظر میں عمران ان کیلئے مستقبل کا خطرہ بن سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مخالف سیاسی اشرافیہ کو عمران ان کی ہزیمت اور تاریک مستقبل کی نوید نظر آتا ہے لہٰذا سیاسی منظر نامے کو تبدیل کرنے کیلئے ایک جانب عمران خان کو مختلف مقدموں، نا اہلی کے ہتھکنڈوں، مائنس ون کے فارمولوں کیساتھ اس طرح کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت بالخصوص پی ٹی آئی بھرپور اکثریت حاصل نہ کر لے، اس مقصد کیلئے سندھ کے شہروں میں بالخصوص کراچی، حیدر آباد میں پی ٹی آئی کی متوقع کامیابی کو متاثر کرنے کیلئے سابقہ ایم کیو ایم کو متحد کرنے کا کھیل سامنے آیا ہے، اسی طرح بلوچستان میں BAP اور پی پی کے منحرف اراکین کی پیپلزپارٹی میں شمولیت نیز جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی کو بالواسطہ سپورٹ کے معاملات اسی کھیل کا حصہ ہے جس کا ذکر ہم نے سطور بالا میں کیا ہے۔ یہی نہیں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تقسیم کا کھیل کھیلنے کیلئے ق لیگ پر کام لگایا جا رہا ہے اور اس حقیقت میں کوئی شُبہ نہیں کہ چوہدریوں کی سیاست کا محور اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔
عام انتخابات کے التواء کے پس پردہ بھی یہی محرکات ہیں کہ صورتحال کو فیصلہ سازوں کی منشاء و منصوبے کے مطابق لا کر انتخابات کا مرحلہ انعقاد پذیر ہو۔ موجودہ حالات میں شیخ رشید کا یہ دعویٰ ہمیں متاثر کر رہا ہے کہ اپریل کے آغاز میں اگر عام انتخابات کا اعلان نہیں ہوا تو پھر ملک میں سیاست کا بوریا گول ہو جائیگا اور حالات جس ڈگر پر جائیں گے اللہ رحم کرے۔ ہماری وطن عزیز کے اصل حکمرانوں و سیاسی اشرافیہ سے یہی التماس ہے کہ موجودہ حالات اور وطن عزیز کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر اپنے رویوں اور اہداف پر نظر ثانی کریں اور جمہوری روایات و اصولوں کو مقدم رکھتے ہوئے وہ فیصلے و اقدامات کریں جو عوام کی اُمنگوں کے آئینہ دار ہوں، بصورت دیگر خدانخواستہ حالات مزید دُگر گوں ہونے کے خدشات ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ پر جو ہنگامہ آرائی ہوئی وہ کسی بھی جمہوری حوالے سے مثبت نہیں، پاکستان پہلے ہی امن و امان اور معیشت کے ناطے بد ترین حالات سے دوچار ہے۔ فیصلہ سازوں کو حالات اور عوامی خواہشات مد نظر رکھتے ہوئے امن کو یقینی بنانا ہوگا۔
حبیب جالب نے کہا تھا!
ظلم کے ہوتے امن کہاں ممکن یارو
اسے مٹا کر جگ میں امن بحال کرو
ہماری مقتدرین سے یہی التماس ہے کہ ظلم مٹا کر دیس میں امن بحال کرو۔
٭٭٭