دشت جنوں!!!

0
115
رعنا کوثر
رعنا کوثر

کہتے ہیں دنیا کی بہترین چھت باپ اور بہترین چھائوں ماں ہے دنیا کے لئے آپ ایک شخص ہوتے ہیں لیکن اپنے خاندان کے لئے پوری دنیا ہوتے ہیں، آج کا دن جب طلوع ہوا تو سورج کی سنہری کرنوں نے اس بات کا اعلان کیا کہ ایک نیا دن آیا ہے اور اس نئے دن میں بے شمار اچھے اور نئے کام ہمارے منتظر ہوتے ہیں۔اسی طرح کچھ نئے بچے پیدا ہوتے ہیں اور خوشی کا مقام یہ ہوتا ہے کے ہر پیدا ہونے والا بچہ دنیا کے لئے ایک بچہ ہوتا ہے مگر ایک خاندان کے لئے وہ خوشیاں لے کر آتا ہے، آج کا دن اس لحاظ سے ہمارے لیے خاص ہے کے20مئی کو ہماری ماں اسی دنیا میں آئیں ایک فرد واحد سے بے شمار افراد وابستہ ہوتے ہیں۔کہنے کو ہم ہی کہتے ہیں کے ایک انسان اکیلا پیدا ہوتا ہے اور اکیلا ہی اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔مگر وہ اکیلا پیدا ضرور ہوتا ہے مگر پھر اس کے ساتھ ایک دنیا بستی چلی جاتی ہے وہ اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ ایک قافلہ کو لے کر چلتا ہے اس قافلے میں سب سے پہلے اس کے والدین اس کا ساتھ دیتے ہیں۔وہ اسے چلنا سکھاتے ہیں بولنا سکھاتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اسے زندگی گزارنے کا سلیقہ طریقہ سکھاتے ہیں اور یوں وہ ایک سپہ سالار تیار کرتے ہیں۔ایک بچی جب بڑی ہوتی ہے تو ایک ماں بنتی ہے اور پھر وہ ایک دشت جنوں میں سفر کرتی ہے۔ایک سلسلہ نکل آتا ہے اگر زندگی رہی تو ماں سے نانی پرنانی تک کا رشتہ چلتا ہے اور اسی لئے وہ ایک چھائوں کی طرح اپنے بچوں کو نہ صرف پالتی ہے بلکہ ان کو ہر گرمی سردی سے بچا کر پروان چڑھاتی ہے۔ میری اماں20مئی1928کو انڈیا میں پیدا ہوئیں والد صاحب یعنی میرے نانا نے ایسی تربیت کی تھی کے چودہ سال میں شادی ہونے کے باوجود وہ بہت باحوصلہ اور خود اعتماد تھیں۔ساتھ ہی ہنر مند بھی کروشیا اور کڑھائی میں ماہر چھوٹی ہی عمر میں انڈیا سے ہوتی ہوئی ڈھاکہ اور پھر کراچی پہنچ گئیں چار بچوں کے ساتھ کراچی میں انڈیا کی پر آسائش زندگی چھوڑ کر ایک نئی زندگی کا آغاز کیا ایک گھر دوبارہ آباد کیا ،دو بچے اور ہوئے نہ وہ آرام ملا اور نہ ہی بچے ہونے کے بعد وہ کھانا پینا جو والدین کے ساتھ ہونے پر ہر لڑکی کو ملتا ہے۔ ہمت اور حوصلے سے بچوں کو بڑا کیا پڑھایا لکھایا شادیاں کیں۔والد صاحب نے بھی ساتھ دیا مگر اس وقت میں والدہ کا ذکر کر رہی ہوں جن کی آج سالگرہ ہے پھر تعلیم حاصل کرنا اور باہر کی دنیا میں بسنا کوئی خواب نہ تھا قسمت تھی میرے بھائی کو امریکہ کا گرین کارڈ مل گیا اور ہم سب والدہ سمیت امریکہ آگئے۔زندگی آگے بڑھتی جاتی ہے اور قافلہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔والدہ نانی دادی بہنیں اور پھر یہ سلسلہ رکا نہیں پرنانی بہنیں اور اس کے بعد بچوں نے بڑی نانی اور بڑی دادی بولنا شروع کردیا اب بڑی بڑی نانی بھی بن چکی ہیں۔ آج ان کی عمر نوے سے زیادہ ہوچکی ہے وہ میری والدہ بہت فعال خاتون تھیں۔ہر کام کو تیار رہتیں بولنا بھی خوب آتا تھا ہم اکثر کہتے امی کو اگر اعلیٰ تعلیم ملتی تو کہیں کی ہیڈ مسٹریس یا پھر لیڈر ہوتیں۔وہ ایک سپہ سالار کی طرح ہی ہم سب کو خوب حکم دیتیں اور ہدایات دیتیں ایک دوست کی طرح ہم سب کے ساتھ لوڈو کھیلتیں اور فلم دیکھنے جاتیں، قرآن پڑھاتیں ا، ب، ت سکھاتیں ،حساب سکھاتیں، بننا کاڈھنا ،سلائی نواسیوں تک کو سکھائی۔
اب کان کی سماعت سے محروم ہیں تھوڑی یادداشت بھی ختم ہوگئی ہے اس لیے خاموشی اختیار کرلی ہے۔وہ قافلہ جسے لے کر وہ چلی تھیں اب کچھ خود ہی اس میں بہت سارے قائد پیدا ہوگئے ہیں جو اپنے خاندانوں کو لے کر چل رہے ہیں۔اب وہ سکون سے عبادات کرتی ہیں اور جب نیند آتی ہے تو سکون سے سوتی ہیں۔
ماں کے لیے چند خوبصورت اشعار
گم ہے جو تیری آنکھ کا منظر تلاش کر
باہر جو کھو گیا ہے وہ اندر تلاش کر
جو تجھ کو تیری ذات سے باہر نکال دے
دشت جنوں میں ایسا قلندر تلاش کر
میری والدہ اکثر کہتی ہیں یہ انسان بھی کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے ہم انڈیا میں پیدا ہوئے۔پھر ڈھاکہ پھر کراچی اور اب امریکہ آگئے۔انسان کا کچھ پتہ نہیں ہوتا وہ کہاں پیدا ہوگا اور کہاں زندگی گزارے گا۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here